کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 427
’’العقل والنقل‘‘ کی درجِ ذیل عبارت کا یہی مطلب ہے: کسی بھی قوم سے بوقت ضرورت ان کی اصطلاح اور زبان میں بات کرنا مکروہ نہیں ہے، جب معانی صحیح ہوں مثلاً عجمیوں ، رومیوں ، فارسیوں اور ترکوں سے ان کی لغت اور اصطلاح میں بات کرنا بوقت ضرورت جائز اور مستحسن ہے۔ اس کام کو علماء نے اس وقت مکروہ کہا ہے جب کہ اس کی ضرورت نہ ہو۔‘‘ وہ مزید فرماتے ہیں : یہی وجہ ہے کہ جب قرآن اور حدیث سمجھانے کی ضرورت ہو تو ان کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان کو جب دوسری امتوں کی کتب اور کلام کو ان کی زبان میں پڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کا عربی زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہودیوں کی زبان سیکھنے کا حکم دیا تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پڑھ اور لکھ سکیں کیوں کہ یہودیوں کو اس معاملے امین نہیں سمجھا جا سکتا۔ قرآن کریم کا حقیقی معانی میں ترجمہ گو اصل معانی کے مطابق ہو لیکن قرآن کی تمام آیات کے لیے آسان نہیں ہے بلکہ تفسیری ترجمہ آسان ہوتا ہے اور پڑھنے والے کو اس کا احساس دلانا ضروری ہوتا ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ صحائف کے حواشی پر ایسے جملے لکھ دیے جائیں جس میں یہ وضاحت کی جائے کہ مذکورہ مفہوم ان آیات کے ممکنہ معانی میں سے ایک ہے۔ اگر مخلص اور عقل مند جماعت قرآن کریم کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کی ذمہ داری اٹھالے، جن کے مقاصد واضح ہوں اور وہ لوگ اجنبی زبانوں پر دسترس بھی رکھتے ہوں تو اس سے یورپ وغیرہ میں پائے جانے والا تراجم کی غلطیوں کی نشان دہی بھی ہو سکتی ہے اور اسلامی دعوت کا وہ دروازہ بھی کھل سکتا ہے جو ابھی تک بند پڑا ہوا ہے۔ اس کام سے انا اور سرکشی کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ممالک میں بھی دینِ اسلام کی شمع روشن ہو سکتی ہے۔ نماز میں عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں قراء ت کرنا: نماز میں عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں قراء ت کے بارے علماء کے دو مذاہب ہیں :