کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 426
اور نہ ہی اسے سمجھتی ہیں لہٰذا ایسی امتوں کو ان کی زبان میں قرآن کا ترجمہ کر کے بتانا ضروری ہے۔ پہلے ہم جان چکے ہیں کہ لفظی ترجمہ مشکل بھی ہے اور حرام بھی اور ثانوی ترجمہ بھی مشکل ہے نیز اصلی معانی کے مطابق کیا جانے والا ترجمہ مشکل بھی ہے اور اس میں غلطی کا احتمال بھی رہتا ہے۔ اب یہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ قرآن کی ایسی تفسیر کا ترجمہ کر دیا جائے جس میں دعوتِ اسلام کی بنیادی چیزیں قرآن وسنت کی واضح نصوص سے مطابقت رکھتی ہوں تاکہ دوسری زبان کے لوگوں تک دعوت پہنچ جائے اور ان پر حجت قائم ہو سکے۔
قرآن کریم کی تفسیر کا ترجمہ اگر اس انداز سے کیا جائے جو ہم ذکر کر چکے ہیں تو ہم اسے ’’تفسیری ترجمہ‘‘ کا نام دے سکتے ہیں اور یہ معنوی ترجمہ سے مختلف ہوتا ہے۔ اگرچہ محققین ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ معنوی ترجمہ میں یہ وہم ہوتا ہے کہ مترجم نے قرآن کے معانی کو ادھر ادھر سے لے کر ایک اجنبی زبان کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ جس طرح کسی ترجمہ کے بارے کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’یہ ترجمہ اصل کے مطابق ہے۔‘‘ چناں چہ مفسر اپنی فہم کے مطابق کلام کے معانی کو واضح لہجہ میں بیان کرتا ہے۔ گویا وہ لوگوں سے کہہ رہا ہوتا ہے: ’’میں نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے۔‘‘ جب کہ مترجم ایسے شخص کے لہجے میں بات کرتا ہے جس نے کلام کے تمام معانی کا احاطہ کر لیا ہو اور انہیں دوسری زبان کے قالب میں ڈھال رہا ہو۔
مناسب یہی ہے کہ ترجمہ میں اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ یہ وہ ترجمہ جو ایک مخصوص شخص کی سمجھ میں آسکا، اس میں قرآن کے معانی کی وہ تاویلات شامل نہیں ہوتیں جن کا احتمال ہو سکتا ہے بلکہ اس تفسیری ترجمہ میں وہی بات ذکر کی گئی ہوتی ہے جو مفسر نے اس آیت سے سمجھی ہوتی ہے۔ اس طرح اسلامی عقائد اور مبادیات شریعت کا وہی ترجمہ ہو سکتا ہے جو قرآن سے سمجھا گیا ہوتا ہے۔
چوں کہ دعوتِ اسلام کو دوسروں تک پہنچانا واجباتِ اسلام میں سے ہے، اس لیے تبلیغِ اسلام کے لیے دوسری زبانوں سے واقفیت اور اسلام کے اصولوں کو ان زبانوں میں ڈھالنا بھی ضروری ہے۔ دیگر زبانوں کی معرفت ہی کی بدولت ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ ان کی کتابیں پڑھیں اور مستشرقین کی اسلام کے خلاف ہر زہ سرائی کا رد کر سکیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب