کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 425
ہے؛ کیوں کہ قرآن میں آنے والے ایک لفظ کے بسا اوقات دو یا کئی معانی ہوتے ہیں جب کہ مترجم ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جس سے ایک ہی معنی بیان ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کی عموماً یہی وجہ ہوتی ہے کہ اسے دوسری زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں ملتا جو بہت سے معانی کا احتمال رکھتا ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں کسی لفظ کو مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہوتا ہے، لیکن مترجم اس کے اصل لفظ کے مترادف معانی کا ترجمہ کر دیتا ہے۔ چناں چہ اس طرح قرآن کے ترجمہ میں بہت سی اغلاط کا امکان رہتا ہے۔ جس بات کو امام شاطبی نے اختیار کیا ہے اور اصل معنی کے لحاظ سے ترجمہ کے صحیح ہونے کے لیے حجت قرار دیا ہے، یہ مطلق طور پر نہیں ہے کیوں کہ بعض علماء نے اسے دعوتِ توحید اور ارکانِ عبادات کی نشرواشاعت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ لہٰذا باقی معاملات میں اس سے بچا جائے اور جو اس سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہو اسے عربی زبان سیکھنی چاہیے۔ تفسیری ترجمہ: ہم یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ علماءِ اسلام جب قرآن کی تفسیر کرتے ہیں تو قریبی، آسان اور راجح معنی بیان کرتے ہیں اور اس تفسیر کا ترجمہ بھی دیانت داری اور مہارت سے کرتے ہیں ، اسے تفسیر القرآن کا ترجمہ یا تفسیری ترجمہ کہا جاتا ہے اور اس سے کلام کی شرح اور دوسری زبان میں اس کے معانی وضاحت مراد لیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کی طرف پیغام اسلام دے کر بھیجا، حالانکہ ان کی اجناس اور رنگت مختلف تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً۔)) (متفق علیہ) ’’ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا جب کہ مجھے تمام انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے۔‘‘ رسالت کی لازمی شرط تبلیغِ دین ہے، قرآن عربی زبان میں نازل ہوا، اس لیے عربی امت کے لیے اس کی تبلیغ کرنا لازمی ہو گیا۔ جب کہ باقی تمام امتیں اچھی طرح سے عربی بول سکتی ہیں