کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 424
قرآن کریم کے کسی لفظ کا ترجمہ کرنے کے بعد کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے یہ (ترجمہ شدہ لفظ) کلام اللہ ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام وہی ہے جسے ہم عربی زبان میں تلاوت کرتے ہیں ، اور ترجمہ میں اعجاز بالکل نہیں رہتا کیوں کہ اعجاز اسی میں ہے جو عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے اور جس کی تلاوت عبادت ہے وہ یہی عربی قرآن ہے جسے اس کے الفاظ وحروف اور کلمات کی ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے۔
اس لحاظ سے ترجمہ کرنے والا خواہ مختلف زبانوں کے اسالیب اور تراکیب کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو جب لفظی ترجمہ کرے گا تو اسے قرآن نہیں (بلکہ قرآن کا ترجمہ) کہا جائے گا۔
۲۔ معنوی ترجمہ اور اس کا حکم:
ایک لغت کی کلام کو اصل کلام کی ترتیب وتنظیم کا لحاظ رکھے بغیر دوسری لغت میں ڈھالنا۔
قرآن کے معانی کا دوسری زبان میں ترجمہ (یعنی تفسیر) کرنا آسان کام نہیں ۔ خواہ ایسی زبان ہی کیوں نہ ہو جس کے الفاظ کی دلالت انھی مقررہ معانی کو واضح کرتی ہو جو علم البیان کے ماہرین کے نزدیک تراکیب کے خواص سے تعلق رکھتے ہوں اور کوئی بھی شخص آسانی کے ساتھ ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ علامہ زمخشری کی گزشتہ عبارت کا بھی یہی مفہوم ہے۔
بلاغتِ قرآنی کے اسلوب لفظی ہوں یا ترکیبی، اسی طرح معرفہ ہوں یا نکرہ، تقدیم وتاخیر ہو یا ذکر وحذف یا بلاغت کا کوئی بھی اسلوب ہو جس سے لغت قرآن کو رفعت وبلندی حاصل ہوتی ہے اور وہ دلوں پر اثرانداز ہوتا ہے، تو دوسری کسی بھی زبان میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی کہ وہ اس معنی کو ادا کرنے کا حق ادا کر سکے، البتہ اصل معانی کو کسی دوسری زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
امام شاطبی ’’الموافقات‘‘ میں اصل اور ثانوی معانی کا ذکر کرنے کے بعد رقم طراز ہیں :
پہلے طریقہ یعنی قرآن کے اصلی معانی کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجمہ کرنا ممکن ہے اور اس انداز سے قرآن کی تفسیر کرنا اور عوام الناس، جنہیں اس کا فہم نہیں ہوتا، کے لیے اس کے معانی کی وضاحت کرنا صحیح اور مسلمانوں کے ہاں بالاتفاق جائز ہے اور مسلمانوں کا اتفاق (اجماع) ہی قرآن کے اصل معانی کے لحاظ سے ترجمہ کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
اس کے باوجود قرآن کے اصل معانی کا لحاظ رکھتے ہوئے کیے گئے ترجمہ میں خرابی آجاتی