کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 423
مراد ہیں جو الفاظ کی ترتیب وتنظیم سے متعلق ہوتے ہیں ۔ انہی خصوصیات کی بناء پر قرآن کریم معجز کلام ہے۔
بعض آیات کے اصل معانی کے ساتھ عربی کلام کے نثر یا نظم کے معانی مطابقت رکھتے ہیں ۔ اس مطابقت کے باوجود ان الفاظ کو قرآن کے اعجاز کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوتا، کیوں کہ قرآن کا اعجاز اس کی انوکھی تنظیم وترتیب اور عمدہ معانی میں ہی ہے، جنہیں ثانوی معانی کا نام دیا جاتا ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر ’’کشاف‘‘ میں اسی مقصد کے تحت لکھتے ہیں :
کلامِ عرب بالخصوص قرآن میں ایسے لطیف معانی پائے جاتے جنہیں کسی دوسری زبان میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔
جو لوگ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لفظی ترجمہ سے اصل عبارت کے اسلوب کی حفاظت اور اس کے تمام معانی کا حصول ممکن نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اجزائے جملہ کی ترتیب میں ایک زبان کی خصوصیات وقواعد دوسری زبان سے مختلف ہوتی ہیں ۔ چناں چہ عربی زبان میں جملہ فعلیہ کی ابتداء فعل سے ہوتی ہے، پھر فاعل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مضاف کو پہلے اور مضاف الیہ کو بعد میں ذکر کیا جاتا ہے۔ جب تشبیہ کی وجہ سے اضافت مقصود ہو تو مقدم کو موخر کیا جا سکتا ہے، جیسے ’’لجین الماء‘‘ یا کسی صفت کو اس کے معمول کی طرف مضاف کیا ہو جیسے ’’عظیم الامل۔‘‘
لیکن دیگر زبانوں میں اس طرح نہیں ہوتا ہے۔
عربی زبان میں اس قدر لغوی اسرار موجود ہیں کہ دوسری زبان کی عبارت اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے لفظی ترجمہ ہر لحاظ سے اصل عبارت کے معنی کا حق ادا نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ ترکیب میں برابر ہو سکے۔
لفظی ترجمہ کا حکم:
گزشتہ حقائق کے پیش نظر کسی بھی انسان کو ذرہ سا بھی شبہ نہیں ہو سکتا ہے کہ لفظی ترجمہ حرام ہے کیوں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول پر نازل کردہ کلام ہے، اس کے الفاظ اور معانی میں اعجاز پایا جاتا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔