کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 422
لحاظ سے اسلامی حکومت کا قیام عربی زبان کے زندہ رہنے کے لیے بہت بڑا سبب بن گیا۔
قرآن اسلام کی وحی ہے اور اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کیا گیا دین ہے اس لیے اسلام کے بنیادی اصولوں کی معرفت تبھی ممکن ہے جب قرآن کو اس کی زبان میں سمجھا جائے گا۔ چناں چہ فتوحات اسلامی کی موجیں ، عجمی زبانوں سے جا ٹکرائیں ، انہیں عربی رنگ دیا گیا، لہٰذا دین میں داخل ہونے والے ہر شخص کے لیے ضروری ٹھہرا کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر عربی زبان کو حاصل کرے تاکہ وہ اسلام کے فرائض ادا کر سکے۔ چناں چہ اس وقت قرآن کو کسی اور زبان کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ قرآن ہر آدمی کو ایمان واطاعت کے لحاظ سے عربی بنا دیتا تھا، جس سے اس کی زبان بھی عربی میں بدل جاتی تھی۔
ترجمہ کا مفہوم:
ترجمہ دو طرح کا ہوتا ہے:
۱۔ لفظی ترجمہ
۲۔ تفسیری یا معنوی ترجمہ
۱۔ لفظی ترجمہ:
الفاظ کو ایک لغت سے دوسری لغت میں اس طرح منتقل کرنا کہ اس کا نظم اور ترتیب ایک دوسرے سے موافقت رکھتے ہوں ۔
قرآن کریم عربی زبان کی وضاحت وبلاغت کی بلندیوں پر فائز ہے۔ اس کی تراکیب کا انداز مخصوص، اسلوب میں جاذبیت اور معنی ومفہوم میں بہت باریکیاں پائی جاتی ہیں ۔ نیز اس کی آیات میں ایسا اعجاز پایا جاتا ہے جسے کسی دوسری زبان میں ادا نہیں کیا جاسکتا۔
معنوی ترجمہ:
’’ایک لغت کی کلام کو اصل کلام کی ترتیب کا لحاظ رکھے بغیر دوسری زبان میں ڈھالنا۔‘‘
قرآن کریم اور اسی طرح ہر عربی کلام کے کچھ اصلی اور کچھ ثانوی معانی ہوتے ہیں ۔
اصل معانی سے وہ معانی مراد ہیں جنہیں وہ تمام انسان برابر سمجھ لیتے ہیں جو مفرد الفاظ کے مطلب اور الفاظ کے باہمی ربط کا اجمالی طور پر علم رکھتے ہیں ۔ جب کہ ثانوی معانی سے وہ معانی