کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 419
٭ ﴿اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا﴾ (فاطر: ۲۴) ٭ ﴿وَ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ہُوَ الْحَقُّ﴾ (فاطر: ۳۱) ٭ ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ﴾ (النساء: ۱۷۰) ٭ ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ﴾ (المائدہ: ۴۸) ٭ ﴿وَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ﴾ (الرعد: ۱) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو واقعات بیان کیے ہیں ، وہ بھی سچے ہیں ۔ فرمایا: ٭ ﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَہُمْ بِالْحَقِّ﴾ (الکہف: ۱۳) ٭ ﴿نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ﴾ (القصص: ۳) تربیت وتہذیب میں قرآنی واقعات کا اثر: اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک بہترین قصہ میں سماعت کے لیے بہت دلکشی کا سامان ہوتا ہے۔ وہ بڑی آسانی اور نرمی کے ساتھ انسان کے دل پر اثر انداز ہوتا ہے کیوں کہ ہوش وحواس اس کے لیے پوری طرح مستعد ہوتے ہیں ، اس لیے اکتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا نیز عقل وشعور کے تمام عناصر کی دلچسپی کی وجہ سے انسان سے پوری طرح مستفید بھی ہوتا ہے۔ جب کہ ایسے اسباق جن میں صرف وعظ وتلقین ہو ان سے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے، طبیعت ساتھ نہیں دیتی اور تمام باتیں سمجھنے میں بڑی پریشانی اور دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چناں چہ یہ اسباق زیادہ دیر سنے نہیں جاتے۔ اس لحاظ سے واقعات بیان کرنے والے طریقے میں فوائد زیادہ ہوتے ہیں ۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بچپن میں بچہ بھی کہانیاں سننے کا شوق رکھتا ہے اور قصہ سننے میں دھیان دیتا ہے اور اس کے اقتباس کو یاد کر کے دوسروں کو بھی سنا دیتا ہے۔ لہٰذا تربیت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس طریقہ کو اپنائیں اور دینی تہذیب وتعلیم میں اس سے استفادہ کریں کیوں کہ اصل تعلیم وتہذیب یہی ہے اور اسی سے درست سمت کا تعین ہوتا ہے۔ قرآنی واقعات میں اتنا مواد موجود ہے کہ تربیت کرنے والے اس کی بدولت اپنی ذمہ داریاں کامیابی کے ساتھ نبھا سکتے ہیں ۔