کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 418
طالب علم نے شروع سے آخر تک اسی بنیاد پر مقالہ لکھا ہے، میں بعض مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ مقالہ نگار کے مقاصد اور نظریات واضح ہو جائیں۔
اس کے بعد استاد احمد امین نے اپنی بات پر شہادت کے لیے چند مثالیں پیش کیں ، جن میں طالب علم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ قصص القرآن میں تاریخی سچائی کو مدِنظر نہیں رکھا گیا بلکہ ان میں وہی تصور کشی کی گئی ہے جو کوئی بھی ادیب کسی حادثے پر کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قرآن میں بیان کیے گئے بعض قصص من گھڑت ہیں اور سابقہ اہلِ علم نے قصص قرآنی کو شمار کرنے میں معتمد علیہ تاریخ میں غلطی کی ہے۔
ایک سچا مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جو فنی تصویر اور ایسے حقائق سے پاک ہے جن میں تاریخی سچائی نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے بیان کردہ تمام قصص تاریخی حقائق ہیں جنہیں بہترین الفاظ اور دلکش شکل وصورت اور عمدہ اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس طالب علم نے ادب میں فنِ قصہ کو پڑھا ہو جس کے بنیادی عناصر میں ایک عنصر افسانہ (خیال) بھی ہوتا ہے، جس کی بنیاد تصور پر ہوتی ہے۔ جیسے جیسے خیال ارتقاء کی طرف بڑھتا ہے، حقیقت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے چناں چہ اس میں دلچسپی اور دلفریبی بڑھتی چلی جاتی ہے اور پڑھنے میں مزہ آتا ہے۔ لہٰذا اس طالب علم نے قرآنی قصص کو بھی ادبی قصص پر قیاس کر لیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن ایسا بالکل نہیں ہے، اسے خوب علم وحکمت رکھنے والی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا اور اس کی بیان کردہ تمام خبریں واقعات کے عین مطابق ہیں ۔
جب اہلِ علم ودانش جھوٹ بولنے سے بچتے ہیں اور جھوٹ کو بہت برا کام سمجھتے ہیں اور وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ اس سے انسانیت داغ دار ہو جاتی ہے تو کیا کوئی عقل مند یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے؟
اللہ تعالیٰ تو حق ذات ہے۔ فرمایا:
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ﴾ (الحج: ۶۲)
نیز اس نے اپنے رسول کو بھی حق دے کر بھیجا، جس کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :