کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 417
2۔ قرآن کی قوتِ اعجاز کو ثابت کرنا، چناں چہ ایک ہی معنی کو مختلف صورتوں میں لانے کا مقصد چیلنج کو انتہا تک پہنچانا ہے کیوں کہ عرب کے لوگ تو اس جیسا ایک اسلوب بھی نہیں لا سکے تھے۔
3۔ نفسِ واقعہ کی شان کو بیان کرنا تاکہ دل پر اچھی طرح اثرانداز ہو سکے، کیوں کہ تکرار تاکید کے طریقوں میں ایک طریقہ ہے، مثلاً فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں حق وباطل کے معرکہ کی بہترین منظر کشی کی گئی ہے۔
لیکن یاد رہے کوئی بھی واقعہ خواہ کتنی ہی بار قرآن میں وارد ہوا ہو، ایک ہی سورت میں دو بار اسے ذکر نہیں گیا۔
4۔ تکرار کی ایک وجہ غرض وغایت میں اختلاف ہوتی ہے، چناں چہ ایک غرض سے متعلقہ معانی ایک جگہ بیان ہوتے ہیں اور دوسرے معانی حالات وواقعات کے مطابق کسی دوسری جگہ بیان ہوتے ہیں ۔
قصص القرآن حقیقت ہیں ، افسانہ نہیں :
یہاں یہ بات ذکر کرنا مناسب رہے گا کہ ۱۳۶۷ ہجری میں مصر کی ایک یونیورسٹی کے طالب علم نے ڈاکٹریٹ (P.H.D) کی ڈگری کے لیے ’’الفن القصصی فی القرآن‘‘ (قرآن میں فنِ قصص) کے نام سے ایک مقالہ پیش کیا، جس پر بہت شور برپا ہوا۔ ممتحن کمیٹی کے اساتذہ میں ایک استاد احمد امین بھی تھے جنہوں نے اس مقالہ پر رپورٹ لکھ کر شعبہ ادب کے پرنسپل کو بھیج دی اور اسے ’’الرسالۃ‘‘ نامی مجلہ میں شائع بھی کیا، اس رپورٹ میں طالب علم کی جمع کردہ معلومات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اگرچہ طالب علم کے مقالہ کے نگران استاد نے طالب علم کا دفاع کیا۔
استاد احمد امین کی رپورٹ ذیل کی سطر میں بیان کی جا رہی ہے:
یہ مقالہ (Thesis) کوئی عام مقالہ نہیں بلکہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ قرآنی قصص ایک فنی عمل ہے۔ اس میں وہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں جو ایک فن میں ہوتی ہیں اس میں تاریخ کی سچائی کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس سے معاذ اللہ یہ ثابت ہوتا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فن کار تھے۔