کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 416
رسول کو مبعوث فرمایا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ.﴾ (الانبیاء: ۲۵) 2۔ گزشتہ انبیاء کی تصدیق، ان کی یاد تازہ کرنا اور ان کے آثار کو ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید رکھنا۔ 3۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ امتوں اور اقوام کے بارے اپنی دعوت میں جو کچھ بتایا اس کی تصدیق۔ 4۔ اہلِ کتاب واضح دلائل اور ہدایت کو چھپاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں لاجواب کرنا اور انہیں چیلنج کرنا کہ ان کی کتابوں میں تحریف اور تبدیلی سے پہلے یہ کچھ موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآئِ یْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰۃُ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰۃِ فَاتْلُوْہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ.﴾ (آل عمران: ۹۳) 5۔ قصص ادب کی ایک قسم ہے جب انہیں بیان کیا جائے تو سماعت ان کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نتیجہ دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ.﴾ (یوسف: ۱۱۱) قصص القرآن کے تکرار کی حکمت: قرآن کریم میں بہت سے ایسے واقعات بیان ہوئے ہیں جنہیں بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ چناں چہ ایک قصہ قرآن میں کئی دفعہ ذکر ہوتا ہے لیکن ہر جگہ اسے تقدیم وتاخیر اور ایجاب واطناب کی مختلف صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے جس کی کئی حکمتیں ہیں ۔ 1۔ اعلیٰ مرتبہ میں قرآن کی بلاغت کا بیان، بلاغت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایک ہی بات کو مختلف صورتوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک واقعہ اگر دوسری جگہ بیان ہوتا ہے تو وہاں اس کا اسلوب پہلے سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک ہی قصہ کو مختلف سانچوں میں ڈھالا جاتا ہے جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اس کے تکرار سے اکتاتا نہیں بلکہ اسے ایسے ایسے معانی حاصل ہوتے ہیں جو ایک ہی جگہ پڑھنے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔