کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 414
مبحث: 21
قصص القرآن
کسی بھی حادثہ کے پیش آنے پر اس کے اسباب اور نتائج بیان کیے جائیں تو سماعت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ گزشتہ اقوام کے واقعات کے ساتھ عبرت کا سامان مہیا کیا جائے تو یہ کام دل میں عبرت بٹھانے کے لیے ایک مضبوط ترین عامل ہے کیوں کہ وہ نصیحت جسے بطور خطاب بیان کیا گیا ہو، عقل وشعور میں اس کے تمام پہلو نہیں آتے اور نہ ہی بیان کی ہوئی بات مکمل طور پر یاد رہتی ہے لیکن جب اس عبرت کو زندگی میں پیش آنے والے واقعہ میں ڈھال دیا جائے تو انسان، شوق، دلجمعی اور انہماک سے اس نصیحت کو سنتا اور اس سے متاثر ہوتا ہے۔ جب کہ آج تو قصہ گوئی کا ادب زبان وادب کے فنون میں سے ایک خاص فن بن چکا ہے اور سچے واقعات جو عربی اسلوب میں بیان کیے جائیں اور وہ اس دور کی بہترین نمائندگی کرنے والے ہوں انہیں ہم ’’قصص القرآن‘‘ کہتے ہیں ۔
قصص کا مفہوم:
القصص: نشانات کے پیچھے چلنا، ’’قَصَصْتُ اَثَرہ‘‘ بولا جائے تو مطلب ہوتا ہے۔ میں اس کے نشانات پر چلا۔ ’’قَصَصْ‘‘ مصدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا.﴾ (الکہف: ۶۴)
یعنی ’’وہ دونوں اپنے ان نشانات پر واپس پلٹے جن پر آئے تھے۔‘‘
اس طرح موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی بات بیان کی:
﴿وَ قَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہِ﴾ (القصص: ۱۱)
یعنی ’’تم اس کے پیچھے پیچھے چلو تاکہ دیکھ سکو کہ اسے کون اٹھاتا ہے۔‘‘
اسی طرح ’’قصص‘‘ ان واقعات کو بھی کہا جاتا ہے جن کی خوب جستجو کی گئی ہو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ﴾ (آل عمران: ۶۲)