کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 413
عِلْمٍ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ. بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ.﴾ (الانعام: ۱۰۰۔۱۰۱) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے سے تولد کی نفی فرمائی، وہ اس طرح کہ ایک ہی چیز سے تولد ممکن نہیں کیوں کہ تولد دو سے ہوتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی ہی نہیں ہے، نیز وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ اگر اس کی اولاد مانی جائے تو تناقض پیدا ہوتا ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے جس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں خود مختار ہے چناں چہ ارادہ میں خود مختار ہونا اور بالطبع کام کرنے میں شعور فرق کرتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا ہر چیز کے بارے علم رکھنا ہر اس امر سے مانع ہے کہ وہ ایسے امورِ طبیعیہ کی طرح ہو جن سے بلا شعور اشیاء پیدا ہوں ، مثلاً گرمی سردی وغیرہ، چناں چہ اس کی طرف اولاد کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ بحث ومباحثہ اور جدل کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں ۔ مثلاً انبیاء کا اپنی امتوں سے مناظرہ، مومنین کا منافقین سے مناظرہ اور اس طرح کی دیگر اقسام۔