کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 409
دلیل اور تقسیم و تحدید ایسی نہیں ہے جو قرآن میں نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور کو عرب لوگوں کی عادت کے مطابق نازل فرمایا ہے۔ متکلمین کے احکام کے طریقوں کی باریکیوں کا لحاظ نہ رکھتے کے دو اسباب ہیں : اول: پہلا سبب وہ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ﴾ (ابراہیم: ۴) دوم: دقیق حجت کی طرف وہی مائل ہوتا ہے جو واضح کلام کے ساتھ اپنی حجت قائم کرنے سے قاصر ہو۔ چناں چہ جو شخص واضح کلمات کے ساتھ اپنی بات دوسروں کو سمجھا سکتا ہو وہ ایسے گہرے دلائل کی طرف نہیں جاتا جسے بہت کم لوگ سمجھتے ہوں ۔ نیز واضح کلام میں پیچیدگیاں نہیں ہوتیں ۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مخاطبات میں ایسے دلائل کو بطور حجت بیان فرمایا جو واضح صورت میں ہونے کے ساتھ ساتھ باریکیوں سے بھی پُر ہیں ، اس لیے عام لوگ ایسے دلائل کو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں جس سے وہ مطمئن ہو جاتے ہیں اور خواص ان دلائل سے اتنا کچھ سمجھ لیتے ہیں جو خطباء کی فہم کے برابر ہوتا ہے۔ اس معاملے کو اس حدیث پر محمول کیا جائے گا: ((اِنَّ لِکُلِّ اٰیَۃٍ ظَھْرًا وبَطْنًا وَلکلِ حرفٍ حَدًّا ومُطَّلَعًا۔)) ’’ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن (اسی طرح) ہر حرف کی ایک حد ہے اور ایک مطلع۔‘‘ اس معاملے کو اس چیز پر محمول نہیں کیا جائے جو باطنیہ فرقہ کے لوگ اپناتے ہیں ۔ اس لحاظ سے ہر وہ شخص جو مختلف علوم سے واقفیت رکھتا ہے اسے قرآن سے بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت اور وحدانیت پر کوئی دلیل ذکر فرماتے ہیں تو کبھی اس کی نسبت عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف، کبھی تمام سامعین کی طرف، کبھی غوروفکر کرنے والوں اور کبھی نصیحت لینے والوں کی طرف کرتے ہیں ، جس کا مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ ان قوتوں کے مالک افراد اس دلیل کی حقیقت سے اپنی صلاحیتوں کے مطابق آگاہی حاصل کر سکتے ہیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.﴾ (الرعد: ۴)