کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 408
الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَ بَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.﴾ (البقرہ: ۱۶۴) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِکُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ.﴾ (الانعام: ۹۹) ﴿لِّقَوْمٍ یَتْفَکِّرُوْنَ.﴾ اسی طرح دیگر آیات ہیں ۔ تو یہ آیات ایک معین شے پر دلالت کرتی ہیں مثلاً: آیت: ﴿وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّہَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَآ اٰیَۃَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَآ اٰیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ﴾ (الاسراء: ۱۲) میں ’’النَّہَارَ‘‘ سورج پر دلالت کرتا ہے۔ چناں چہ آیات صرف خالقِ کائنات کے وجود پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ اس کے اور کسی غیر کے درمیان قدرِ مشترک پر کیوں کہ اس کے علاوہ ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے وجود سے صرف خالق کے وجود کا علم ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی توحید پر جو دلائل دیے، آخرت کے بارے خبر دی اور اپنے رسولوں کے سچے ہونے کے بارے جو براہین قائم کی ہیں انہیں کسی قیاس شمول یا تمثیل کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ یہ دلائل اپنے مدلول پر اتنے واضح ہیں کہ ان کے بارے جاننے سے وضاحت ہو جاتی ہے اور ذہن فوراً ان کے مدلول کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ جس طرح سورج کی کرنیں دیکھ کر ذہن یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ سورج طلوع ہوگیا ہے۔ استدلال کی یہ قسم بدیہی کہلاتی ہے اور اس کے ادراک میں تمام عقول برابر ہیں ۔ زرکشی ’’البرہان‘‘ میں کہتے ہیں : قرآن کریم ہر قسم کے دلائل وبراہین پر مشتمل ہے۔ کلیاتِ عقلیہ اور سمعیہ سے کوئی برہان،