کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 407
اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں : ۱۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور لوگوں سے ان کی معروف زبان میں خطاب کیا۔ ۲۔ استدلال کے لیے ان فطری چیزوں پر اعتماد ہوتا ہے جنہیں دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہو اور ان پر گہرا غوروفکر کیے بغیر ایمان لانا فطرت انسانی کا تقاضا ہے ایسی چیزوں میں بہت واضح دلیل ہوتی ہے۔ ۳۔ واضح کلام کو چھوڑ کر مشکل، دقیق اور پیچیدہ کلام اختیار کیاجائے تو اسے چند خاص لوگ ہی سمجھ پاتے ہیں ۔ اہلِ منطق کے مطابق ایسا کلام ہر لحاظ سے درست نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں موجود توحید اور آخرت کے دلائل ایسے مضبوط ہیں جو اپنے مدلل پر قطعی طور پر دلالت کرتے ہیں اور انہیں کسی قاعدہ وکلیہ کے تحت لانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ شیخ الاسلام اپنی کتاب ’’الرد علی المنطقین‘‘ میں رقم طراز ہیں : وہ قیاسی دلائل جنہیں اہلِ نظر وفکر براہین کا نام دیتے ہیں اور ان سے اللہ تعالیٰ کی موجودگی ثابت کرنا چاہتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی برہان اور دلیل اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ دلائل ایسے مطلق امر پر دلالت کرتے ہیں جس میں شراکت کا تصور پایا جاتا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ نئی چیز ہے‘‘ تو ہر نئی چیز کو وجود بخشنے والا ہوتا ہے، اگر ممکن ہے تو ممکن کے لیے واجب ضروری ہے۔ لہٰذا ان کے دلائل سے مطلق، محدث یا واجب پر دلالت ہوتی ہے جن کا تصور شرکت سے مانع نہیں ہے۔ مزید فرماتے ہیں : ان کے دلائل سے اللہ تعالیٰ کی مخصوص ذات پر ہوتی ہے اور نہ ہی واجب الوجود یا کسی اور پر، ان کی دلالت تو امرِ کلی پر ہوتی ہے جس کا تصور شرکت کو مانع نہیں جب کہ واجب الوجود کا علم اس میں شرکت سے مانع ہے اور جس نے ایسا تصور نہیں کیا جو شرکت سے مانع ہو وہ اللہ تعالیٰ کو کس طرح پہچان سکتا ہے۔ نیز یہ معاملہ ان آیات کے برعکس ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے: ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ وَ الْفُلْکِ