کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 406
یعنی انسان بہت زیادہ جھگڑنے والا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین سے اچھے انداز میں بحث ومباحثہ کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ان کی طبیعت اور عادت میں نرمی آجائے، فرمایا:
﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ﴾ (النحل: ۱۲۵)
آپ حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کے رستے کی طرف دعوت دیں اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے مباحثہ کریں ۔
نیز اسی انداز میں اہلِ کتاب کے ساتھ مناظرے کو مباح کیا، فرمایا:
﴿وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ﴾ (العنکبوت: ۴۶)
’’اہل کتاب کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث ومباحثہ کیجیے۔‘‘
یہ طریق کار ایسے مناظرے کا ہے جس کا مقصد حق کو ظاہر کرنا اور اس کے صحیح ہونے پر دلائل دینا ہو۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے کافروں کی ہدایت کے لیے قرآن میں جدال آیا ہے۔ بخلاف خواہشات پرستوں کے معاملے کے کیوں کہ ان کا مباحثہ باطل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ یُجَادِلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ﴾ (الکہف: ۵۶)
قرآن کریم کا انداز مناظرہ:
قرآن کریم جھگڑنے والوں کے سامنے ایسی براہین ودلائل رکھتا ہے جو اس قدر واضح ہوتی ہیں کہ انہیں ہر خاص وعام سمجھ لیتا ہے، اور فاسد شبہات کو باطل کرنے کے لیے ایسا واضح اسلوب رکھتا ہے جس کے نتائج واضح اور ترکیب عمدہ ہوتی ہے، اس وجہ سے عقل پر زیادہ زور دینے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی زیادہ بحث کی ضرورت پیش آتی ہے۔
بحث ومباحثہ اور مناظرہ میں قرآن کریم متکلمین کا انداز نہیں اپناتا کہ جس طرح ان کا اصطلاحی مقدمات پر اعتماد ہوتا ہے کہ قیاس شمول میں جزئی برکلی کا استدلال کرتے ہیں ، قیاس تمثیل میں ایک جزء کو دوسرے پر دلیل بناتے ہیں یا قیاس استقراء میں جزئی کا کلی پر استدلال کرتے ہیں ۔