کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 405
مبحث: 20 قرآن کریم کا (جدل) بحث ومباحثہ کا انداز[1] انسان جن واضح حقائق کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، کائنات میں ان کے وجود کا منہ بولتا ثبوت موجود ہے، انہیں ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل اور برہان کی ضرورت نہیں ہے لیکن اکثر ایسے ہوتا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے شکوک وشبہات پیدا کر دیتے ہیں اور حقائق پر شبہات کا ایسا خول چڑھا دیتے ہیں کہ انہیں حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایسے شبہات عقل وشعور کو خوب بھاتے ہیں لہٰذا ایسے امور کو دلائل وبراہین کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ ایسے شکوک وشبہات کا اعتراف واقرار انسان کو بتدریج ایمان یا کفر کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآن تمام انسانیت کی طرف اللہ تعالیٰ کی دعوت ہے اس لیے اسے ہر طرح کے رجحانات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض لوگ باطل کے ذریعے اس کے حقائق کا انکار کرنے کے لیے اٹھے اور اس کے اصولوں پر جھگڑنے کے لیے تیار ہوئے تو قرآن نے ایسے لوگوں کو حسی اور ظاہری خاموشی پر مجبور کر دیا اور ایک ایسے بے مثال اسلوب میں انہیں جوابات دیے کہ منکرین پر سناٹا طاری ہوگیا۔ جدل کی تعریف: جدل اور جدال سے مراد ہے: مدِمقابل پر حجت قائم کرکے بحث ومباحثۂ اور غالب آنے کے لیے اسے شریک کرنا۔ لفظ جدل کا استعمال رسی بٹنے پر بھی ہوتا ہے جب آپ کہیں گے جَدَلْتُ الْحَبْلَ تو مطلب ہوگا۔ میں نے رسی کو خوب اچھی طرح بٹا۔ گویا جدال وجدل میں ہر فریق دوسرے کو اس کی رائے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ جھگڑا انسان کی فطرت میں شامل ہے، فرمایا: ﴿وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا.﴾ (الکہف: ۵۴)
[1] عربی نسخے میں یہ مبحث جدل القرآن کے نام سے ہے جس کا اردو ترجمہ بحث ومباحثہ کیا گیا ہے۔