کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 403
یہ نہیں کہا جاتا کہ جملہ شرطیہ پوشیدہ (مقدر) شرط کا جواب ہوتا ہے کیوں کہ شرط کا جواب بننا درست نہیں اس لیے کہ جواب ہمیشہ خبر ہوتا ہے جب کہ شرط انشائیہ ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے پہلی مثال ﴿لَاَرْجُمَنَّکَ وَ اہْجُرْنِیْ مَلِیًّا.﴾ (مریم: ۴۶) میں (لَاَرْجُمَنَّکَ) پوشیدہ قسم کا جواب ہے جس کی وجہ سے شرط کے جواب کی ضرورت نہیں رہی۔ قسم کے لیے آنے والے لام موطئہ کا شرط پر داخل ہونا واجب نہیں ۔ لہٰذا جب شرط سے پہلے قسم پوشیدہ ہو تو اسے حذف کر دیتے ہیں ۔ جیسے ﴿وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَہُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.﴾ (المائدہ: ۷۳) جس چیز سے پتا چلتا ہے کہ قسم کا جواب دیا گیا ہے شرط کا نہیں ، وہ جواب پر ’’لام‘‘ کا داخل ہونا ہے اور وہ مجزوم نہیں ہوتا جیسے یہ آیت ہے: ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ﴾ (الاسراء: ۸۸) چناں چہ اگر (لَا یَاْتُوْنَ ) کا جملہ جوابِ شرط ہوتا تو فعل مجزوم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَ لَئِنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاِالَی اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ.﴾ (آل عمران: ۱۵۸) میں (لَئِنْ مُّتُّمْ) میں لام موطئہ قسم کے لیے ہے جب کہ (لَاِالَی اللّٰہِ ) میں لام قسم کے لیے ہے یعنی جوابِ قسم کے طور پر آیا ہے اور فعل پر نون تاکید داخل نہیں ہوا تاکہ اس لام اور جار ومجرور والے میں فرق ہو جائے، اصل عبارت یوں بنے گی: ﴿وَ لَئِنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاِ الَی اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ.﴾ (آل عمران: ۱۵۸) بعض افعال کا قسم کی جگہ پر آنا: جب قسم مقسم علیہ کی تاکید کے لیے آئے تو بعض افعال قسم کی جگہ آتے ہیں بشرطیکہ کلام کا