کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 402
﴿وَالَّیْلِ اِِذَا یَغْشٰی. وَالنَّہَارِ اِِذَا تَجَلّٰی. وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثَی. اِِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی.﴾ (اللیل: ۱۔۴)
قرآن کریم میں مذکورہ اقسام کی تلاش کرنے والا بہت سے فنون تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
۵۔ قسم اکثر جملہ خبر یہ ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ﴾ (الذاریات: ۲۳)
یا معنوی لحاظ سے جملہ طلبیہ ہوتی ہے جیسے:
﴿فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ. عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.﴾ (الحجر: ۹۲۔۹۳)
کیوں کہ یہاں ڈراوا اور وعید مراد ہے۔
قسم اور شرط:
قسم اور شرط جب ایک جگہ جمع ہو جائیں تو بعد میں ذکر ہونے والی چیز پہلی کا جواب بن جاتی ہے، لہٰذا ان میں سے کسی ایک کی موجودگی میں دوسرے جواب کی ضرورت نہیں رہتی۔
اگر قسم شرط سے پہلے مذکور ہو تو وہ قسم کے لیے جواب ہوگی، چناں چہ جوابِ شرط کی ضرورت نہیں رہے گی، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ﴾ (مریم: ۴۶)
اس کی اصل (تقدیر) عبارت یوں تھی۔ (وَاللّٰہِ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ)
شرط پر داخل ہونے والا لام، جوابِ قسم کا لام نہیں ہوتا۔ جیسے آیت:
﴿وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ﴾ (الانبیاء: ۵۷)
میں ہے۔ حرف شرط پر لام داخل ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے بعد آنے والا جوابِ قسم پر مبنی ہوتا ہے نہ کہ شرط پر، اسے لام مؤذنہ یا لام موطئہ کہا جاتا ہے کیوں کہ جواب قسم سے اس کی موافقت ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ اسے (روند کر) نرم کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے:
﴿لَئِنْ اُخْرِجُوْا لَا یَخْرُجُوْنَ مَعَہُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوْا لَا یَنْصُرُوْنَہُمْ وَلَئِنْ نَّصَرُوْہُمْ لَیُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ.﴾ (الحشر: ۱۲)
لام موطئہ عموماً اِن شرطیہ پر داخل ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی کسی دوسرے حرف شرط پر بھی آجاتا ہے۔