کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 401
کے بارے اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اس میں بہتر یہی ہے کہ قسم کو جوابِ قسم کی ضرورت نہ ہو، کیوں کہ یہاں مقسم بہ پر تنبیہ کرنا مقصود ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب قسم محذوف ہے جس پر
﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ.﴾ (الانفال: ۷۴)
دلالت کر رہا ہے۔ یعنی کفارِ مکہ پر بھی ایسے ہی لعنت ہے جس طرح اصحاب الاخدود پر تھی۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ محذوف کیا گیا ہے اس کی اصل عبارت تھی لَقَدْ قُتِل؛ کیوں کہ فعل ماضی پر جب جوابِ قسم واقع ہو تو اس پر لام اور قد لازمی آتے ہیں اور طولِ کلام کے علاوہ کسی جگہ ان دونوں میں سے ایک کو لانا جائز نہیں ہوتا جیسا کہ یہ بات بیان ہو چکی ہے۔
۴۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ایمان کے ان اصولوں کی بھی قسم اٹھاتے ہیں جن کی معرفت مخلوق پر واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ کبھی توحید پر قسم اٹھاتے ہیں ۔ جیسے:
﴿وَالصّٰفّٰتِ صَفًّا. فَالزّٰجِرَاتِ زَجْرًا. فَالتَّالِیَاتِ ذِکْرًا. اِِنَّ اِِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ.﴾ (الصافات: ۱۔۴)
کبھی قرآن کے حق ہونے پر قسم اٹھاتے ہیں ۔ جیسے:
﴿فَلَا اُقْسِمُ بِمَوَاقِعٍ النُّجُوْمِ. وَاِِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ. اِِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیمٌ.﴾ (الواقعہ: ۷۵۔۷۷)
کبھی اس بات پر قسم اٹھاتے ہیں کہ رسول علیہ السلام برحق ہیں ۔
﴿یٰسٓ. وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ. اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ.﴾ (یٰس: ۱۔۳)
کبھی جزاء، وعدہ اور وعید پر قسم اٹھاتے ہیں جیسے:
﴿وَالذّٰارِیٰتِ ذَرْوًا. فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا. فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا. فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا. اِِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ. وَّاِِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ.﴾ (الذاریات: ۱ ۔ ۶)
کبھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسان کی حالت پر قسم اٹھاتے ہیں ۔ فرمایا: