کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 400
گیا ہے کہ یہاں جواب قسم محذوف ہے اور وہ ہے (لَتُعَذَّبُنَّ یَا کُفَّارُ مَکَّۃَ) یعنی اے کفار مکہ تمہیں ضرور عذاب ہوگا۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوابِ قسم مذکور ہے اور وہ ہے آیت:
﴿اِِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ .﴾ (الفجر: ۱۴)
لیکن صحیح اور مناسب بات یہی ہے کہ یہاں جوابِ قسم کی ضرورت نہیں ہے۔
کبھی مذکورہ معلومات کی دلالت کی وجہ سے بھی جوابِ قسم کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ. وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ.﴾ (القیامہ: ۱۔۲)
یہاں جواب قسم محذوف ہے جس پر بعد کا قول
﴿اَیَحْسَبُ الْاِِنسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ.﴾ (القیامہ: ۳)
کی دلالت ہو رہی ہے جس میں تقدیر یہ ہے (لَتُبْعَثُنَّ وَلَتُحَاسَبُنَّ)
۳۔ وہ فعل ماضی مثبت متصرف جس سے پہلے اس کا معمول نہ گزرا ہو جب وہ جوابِ قسم واقع ہو رہا ہو تو اس پر لام اور قد آتا ہے اور ان میں سے صرف ایک کو ذکر کرنا جائز نہیں سوائے کلام کے لمبا ہونے کی صورت میں ، مثلاً:
﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا. وَالْقَمَرِ اِِذَا تَلٰہَا. وَالنَّہَارِ اِِذَا جَلَّاہَا. وَالَّیْلِ اِِذَا یَغْشَاہَا. وَالسَّمَآئِ وَمَا بَنَاہَا. وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰہَا. وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا. فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا. قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا.﴾ (الشمس: ۱۔۹)
یہاں ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا.﴾ جوابِ قسم ہے اور طول کلام کی وجہ سے لام کو حذف کر دیا گیا ہے۔
اسی لیے آیات:
﴿وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ. وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ. وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ. قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ .﴾ (البروج: ۱۔۴)