کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 399
۲۔ مضمر:
وہ قسم جس میں قسم کے فعل اور مقسم بہ کی وضاحت نہ کی گئی ہو، اس کے لیے لام موکدہ کی دلالت ہی کافی ہوتی ہے جو جوابِ قسم پر داخل ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ﴾ (آل عمران: ۱۸۶)
یعنی ((واللّٰہ لَتُبْلَوُنَّ)) اللہ کی قسم! تمہیں ضرور آزمایا جائے گا۔
مقسم علیہ کے احوال:
مقسم علیہ کی مختلف حالتیں ہیں ۔
۱۔ مقسم علیہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے قسم کی تاکید اور تحقیق کی جائے، چناں چہ ضروری ہے کہ اس میں غائب اور مخفی امور پائے جاتے ہوں جن کے ثابت ہونے پر قسم اٹھائی جا سکے۔
۲۔ جواب قسم عموماً مذکور ہوتا ہے لیکن کبھی حذف بھی ہوتا ہے جس طرح اکثر جوابِ لَوْ کو حذف کیا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ.﴾ (التکاثر: ۵)
ایسے امور کا حذف کرنا بہترین اسلوب ہے کیوں کہ اس سے تفخیم وتعظیم ثابت ہوتی ہے مثلاً اصل عبارت یوں ہوگی:
((لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ عِلْمَ الْاَمْرِا لیَقِیْنِ لَغَمَلْتُم مَالَا یُوْصَفُ مِنَ الْخَیْرِ۔))
’’اگر تمہیں آنے والے امریقین کا علم ہو جائے تو تم اتنے اچھے کام کرو جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
جوابِ قسم کو حذف کرنے کی مثال، جیسے:
﴿وَالْفَجْرِ. وَلَیَالٍ عَشْرٍ. وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ. وَالَّیْلِ اِِذَا یَسْرِ. ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ.﴾ (الفجر: ۱۔۵)
یہاں قسم سے مراد یہ ہے کہ زمانہ میں یہ سب چیزیں پائی جاتی ہیں جن کی بناء پر وہ اس کے اہل ہے کہ اللہ جل شانہ اس کی قسم اٹھائے اس لیے یہاں جوابِ قسم کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی کہا