کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 398
قسم کی اقسام:
قسم کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ ظاہر ۲۔ مضمر
۱۔ ظاہر:
جس میں قسم کے فعل اور مقسم بہ کی صراحت موجود ہو۔ اس میں بعض قسمیں ایسی ہوتی ہیں جن میں قسم کے فعل کو حذف کر کے ’’با‘‘ ’’تا‘‘ اور ’’واو‘‘ پر اکتفا کیا گیا ہوتا ہے۔
اور بعض مواقع پر قسم کے فعل کو حذف کر کے ’’لا‘‘ نافیہ لایا جاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ. وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ.﴾(القیامۃ: ۱۔۲)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں مقامات پر لا نافیہ ہے اور اس سے ایسی محذوف چیز کی نفی مقصود ہے جو کہ موقع ومحل کے لحاظ سے مناسب ہے، اس لحاظ سے اصل عبارت یوں بنتی ہے۔ (لَا صِحَّۃَ بِمَا تَزْعُمُوْنَ اَنَّہٗ لَا حِسَابَ وَلَا عِقَابَ) پھر آگے نئی بات شروع کرتے ہوئے فرمایا: ﴿لَا اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ. وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ. انکم سَتُبْعَثُوْنَ﴾ یعنی مجھے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے دل کی قسم بے شک تمہیں اٹھایا جائے گا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’لا‘‘ قسم کی نفی کے لیے آتا ہے، گویا اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے: میں تمہیں اس دن اور اس نفس کی قسم نہیں دیتا بلکہ بغیر قسم کے تجھ سے پوچھتا ہوں کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جب موت تمہیں بکھیر دے گی تو ہم تمہاری ہڈیاں جمع نہیں کر سکیں گے؟
یعنی یہ معاملہ اتنا ظاہر ہے کہ قسم کی ضرورت ہی نہیں ۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’لا‘‘ زائدہ ہے اور جوابِ قسم مذکورہ آیت میں محذوف ہے اس پر بعد والی آیت:
﴿اَیَحْسَبُ الْاِِنسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ.﴾ (القیامیہ: ۳)
دلالت کر رہی ہے۔ اس کی اصل عبارت یوں ہے: تم ضرور اٹھائے جاؤ گے اور تم سے حساب بھی ضرور لیا جائے گا۔