کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 396
انکار کے مطابق کمزور یا مضبوط تاکیدی کلام لایا جائے۔ اس قسم کو انکاری کہا جاتا ہے۔ تاکید پیدا کرنے والے امور میں قسم کو شہرت حاصل ہے کیوں کہ اس سے بات دل میں بیٹھ جاتی ہے اور دل کو اس سے تقویت ملتی ہے۔ قرآن کریم چوں کہ ساری انسانیت کے نازل ہوا اور اس بارے لوگوں کے موقف بھی مختلف ہیں ۔ کچھ شک کرنے والے ہیں ، کچھ اس کے انکاری ہیں اور کچھ اس بارے بہت زیادہ جھگڑنے والے ہیں ۔ چناں چہ قسم کلام اللہ میں شک کو زائل کرنے، شبہات کا رد کرنے، حجت قائم کرنے، خبر میں تاکید پیدا کرنے اور حکم کو کامل ترین صورت میں برقرار رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ قرآن کریم اور مقسم بہ: اللہ تعالیٰ اپنی ذات مقدس، اپنی صفات یا ایسی نشانیوں کے ساتھ قسم اٹھاتے ہیں جو اس کی ذات اور صفات کے لیے لازم ہیں اور اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز کے نام کے ساتھ قسم اٹھانے کا مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز اس کی قدرت کی عظیم نشانی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن میں سات مقامات پر اپنی ذات کی قسم اٹھائی ہے: ۱۔ ﴿زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَرَبِّی﴾ (التغابن: ۷) ۲۔ ﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَ رَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ﴾ (سبا: ۳) ۳۔ ﴿وَ یَسْتَنْبِؤُنَکَ اَحَقٌّ ہُوَ قُلْ اِیْ وَ رَبٍّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ﴾ (یونس: ۵۳) ۴۔ ﴿فَوَرَبِّکَ لَنَحْشُرَنَّہُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ﴾ (مریم: ۶۸) ۵۔ ﴿فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ.﴾ (الحجر: ۹۲) ۶۔ ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ﴾ (النساء: ۶۵) ۷۔ ﴿فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ﴾ (المعارج: ۴۰) ان مقامات کے علاوہ باقی تمام مقامات پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی مخلوقات کی قسمیں