کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 395
کلام میں کثرت سے قسم اٹھائی جاتی ہے۔ اس لیے قسم کے فعل (اُقْسِم یا اَحْلِفُ وغیرہ) کو حذف کر کے ’’با‘‘ پر اکتفا کیا جاتا ہے، پھر ظاہری اسماء میں ’’باء‘‘ کی جگہ ’’واؤ‘‘ بھی استعمال کی جاتی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالَّیْلِ اِِذَا یَغْشٰی.﴾ (اللیل: ۱) اسی طرح لفظ جَلَّالہ (اللہ تعالیٰ کے اسم) میں ’’با‘‘ کی جگہ ’’تا‘‘ استعمال کیا گیا ہے، جیسے: ﴿وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ.﴾ (الانبیاء: ۵۷) لیکن ’’تا‘‘ کا استعمال بہت کم اور ’’واو‘‘ کا زیادہ ہوتا ہے۔ تعریف: قسم اور یمین ایک ہی چیز ہے اور اس کی تعریف یہ ہے: ’’نفس کو کسی چیز یا پیش قدمی سے روکنا، جب کہ یہ کام قسم اٹھانے والے کے نزدیک حقیقت یا اعتقادی طور پر بہت بڑا ہو۔‘‘ حلف کو بھی یمین کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ عربوں کی عادت تھی کہ آپس میں حلف کرتے وقت ایک دوسرے کے دائیں ہاتھ کو پکڑا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں قسم کے فوائد: عربی زبان مختلف اغراض میں اسلوب کے اختلاف اور دقت تعبیر کی وجہ سے ممتاز ہے۔ نیز مخاطب کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں اس لیے علم معانی میں کہا جاتا ہے کہ خبر کی تین قسمیں ہیں : ۱۔ابتدائی، ۲۔ طلبی ۳۔ انکاری ۱۔ ابتدائی: مخاطب کا ذہن حکم سے خالی ہو تو اس کے لیے ایسی کلام پیش کی جاتی ہے جو تاکید سے خالی ہوتی ہے، اسے ابتدائی کہا جاتا ہے۔ ۲۔ طلبی: مخاطب کبھی حکم کے ثبوت یا عدم ثبوت میں متردد ہوتا ہے۔ تو اس کے تردد کو ختم کرنے کے لیے حکم کو کسی موکد کے ساتھ تقویت دینا مستحسن ہے، اسے طلبی کا نام دیا جاتا ہے۔ ۳۔ انکاری: کبھی ایسے ہوتا ہے کہ مخاطب کا ذہن حکم کا انکار کرتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کے