کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 394
مبحث: 19
اقسام القرآن[1]
حق کو قبول کرنے اور نورِ حق کی اتباع کے لیے ہر فرد کی استعداد مختلف ہوتی ہے۔ چناں چہ جس نفس کی فطرت رجس سے پاک ہو وہ ہدایت کو قبول کر لیتا ہے اور اس کا دل ہدایت کی شعاعوں کو جذب کرنے کے لیے کھل جاتا ہے اور اسے حق کی طرف لانے کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
لیکن جس دل پر جہالت کے بادل چھائے ہوں اور باطل کی تاریکی نے اسے ڈھانپ رکھا ہو تو اس کے دل کو دہلانے کے لیے زجروتوبیخ کے ہتھوڑوں اور تاکیدی کلمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دورانِ خطاب قسم اٹھانا ایک ایسی تاکید ہے جو سامع کو لاجواب کر دیتی ہے اور مدِمقابل آہستہ آہستہ اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کا وہ انکاری تھا۔
قسم کی تعریف اور صیغے:
صیغہ: اَقْسَامٌ: قَسَمٌ (سین مفتوحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، اس کا معنی حلف اور یمین ہے۔ قسم کا اصل صیغہ یہ ہے کہ پہلے اُقسِمُ یا اَحْلِفُ کا فعل لایا جائے اور بعد میں ’’ب‘‘ لا کر اسے مقسم بہ کی طرف متعدی کیا جائے اور اس کے بعد مقسم علیہ کو لایا جائے، جسے جوابِ قسم کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَا یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ﴾ (النحل: ۳۸)
چناں چہ قسم کے تین اجزاء ہیں :
۱۔ وہ فعل جسے ’’ب‘‘ کے ساتھ متعدی بنایا گیا ہو۔ (اُقسِم۔ اَحْلِف وغیرہ)
۲۔ مقسم بہ: جس کی قسم اٹھائی گئی ہو۔
۳۔ مقسم علیہ: جس پر قسم اٹھائی گئی ہو۔
[1] امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’البتیان‘‘ میں اس بحث کو اقسام القرآن کے نام سے ذکر کیا ہے۔ یہاں اس مبحث کا اختصار بیان کیا گیا ہے۔