کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 393
نیز فرمایا:
﴿وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَ مَا یَعْقِلُہَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ.﴾ (العنکبوت: ۴۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی احادیث مبارکہ میں مثالیں بیان کیں ۔ اسی طرح ہر دور میں دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دینے والوں نے بھی حق کی نصرت اور حجت قائم کرنے کے لیے امثال کا سہارا لیا۔ یہی نہیں بلکہ تربیت کرنے والے اساتذہ کرام بھی وضاحت و تشویق اور تربیت کے دوران ترغیب وتنفیر اور مدح وذم کے لیے امثال کا استعمال کرتے ہیں ۔
قرآن کریم سے مثال دینا:
اہل ادب کی عادت ہے کہ وہ ایسے مقامات پر امثال دیتے ہیں جن میں مشابہت پائی جاتی ہو، جب لوگوں کی دی ہوئی امثال استعمال کی جا سکتی ہوں تو علماء ایسی دنیاوی باتوں میں قرآن سے مثال دینے کو ناپسند کرتے ہیں ۔ وہ اس بات کو درست نہیں سمجھتے کہ انسان کتاب اللہ سے مثال والی آیت پڑھ کر اسے دنیاوی امور پر پیش کرے تاکہ قرآن کریم کی عزت واحترام محفوظ اور اہلِ ایمان کے دلوں میں اس کی عظمت باقی رہے۔
ابو عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اگر کسی انسان کو کسی دوسرے شخص سے بہت اہم کام یا اس سے ملاقات کی شدید خواہش ہو اور وہ آدمی خود اس کے پاس آجائے تو یہ شخص بطور مزاح کہے:
﴿جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی.﴾ (طٰہٰ: ۴۰)
یہ چیز قرآن کے ادب کے خلاف ہے۔
اسی طرح ابن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظیر (مثال) نہ بناؤ۔
ابوعبید کہتے ہیں : کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی اور کے قول یا فعل کے لیے نظیر نہ بناؤ۔