کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 392
فَکَرِہْتُمُوْہُ﴾ (الحجرات: ۱۲) ۵۔ کبھی ممثل بہ کی مدح وتعریف کے لیے مثال بیان کی جاتی ہے۔ مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِِنْجِیلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ﴾ (الفتح: ۲۹) اور حقیقت یہی ہے کہ شروع میں صحابہ بہت تھوڑے تھے پھر بڑھتے بڑھتے بہت مستحکم ہو گئے اور ان کی عظمت رفتہ سے دل خوش ہوگئے۔ ۶۔ مثال بیان کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ممثل بہ کے اس وصف کو اجاگر کیا جائے جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آدمی کی حالت بیان کی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا لیکن وہ اس پر عمل نہ کر کے راہ حق سے بھٹک گیا اور ذلت ورسوائی میں غوطے کھانے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ اتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ. وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ. (الاعراف: ۱۷۵۔۱۷۶) ۷۔ مثال دل میں بات بٹھانے، وعظ کو اچھی طرح پہنچانے، زجروتوبیخ میں قوی تر اور دوسرے کو قائل میں مضبوط ترین ہتھیار ہے۔ اسی لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نصیحت وسیرت کے مواقع پر کثرت سے مثالیں بیان کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.﴾ (الزمر: ۲۷)