کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 390
۱۰۔ ﴿ہَلْ جَزَآئُ الْاِِحْسَانِ اِِلَّا الْاِِحْسَانُ.﴾ (الرحمٰن: ۶۰)
۱۱۔ ﴿کُلُّ حِزْبٍ بِّمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ.﴾ (المومنون: ۵۳)
۱۲۔ ﴿ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ.﴾ (الحج: ۷۳)
۱۳۔ ﴿لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ.﴾ (الصافات: ۶۱)
۱۴۔ ﴿لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ﴾ (المائدہ: ۱۰۰)
۱۵۔ ﴿کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ (البقرہ: ۲۴۹)
۱۶۔ ﴿تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی﴾ (الحشر: ۱۴)
امثال کی اس قسم (امثال مرسلہ) کے بارے اہلِ علم کا اختلاف ہے کہ انہیں امثال کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟
بعض اہلِ علم اسے قرآن کے ادب کے منافی سمجھتے ہیں ، امام رازی آیت ﴿لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ.﴾ (الکافرون: ۶) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
لوگوں کی عادت ہے جب کسی چیز کو چھوڑنا ہو تو اس آیت کے ساتھ تمثیل دیتے ہیں جو کہ جائز نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو تمثیل دینے کے لیے نہیں بلکہ اس پر غوروفکر کرنے اور عمل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔
جب کہ بعض اہلِ علم کے مطابق کسی حقیقت کے اظہار کے وقت قرآن کے ساتھ تمثیل دی جا سکتی ہے۔ جیسے کوئی پریشانیوں میں گھر جائے اور لوگوں کی طرف سے اس پریشانی کو دور کرنے کے اسباب سے بھی ناامید ہو جائے تو وہ کہتا ہے:
﴿لَیْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَاشِفَۃٌ.﴾ (النجم: ۵۸)
یا اگر کوئی فاسد مذہب والا اسے اپنی گفتگو میں باطل کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ آگے سے جواب دیتا ہے:
﴿لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ.﴾ (الکافرون: ۶)
تو یہ بھی جائز ہے۔