کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 39
الفرقان: ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا.﴾ (الفرقان: ۱)
الذکر: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ.﴾ (الحجر: ۹)
التنزیل: ﴿وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.﴾ (الشعراء: ۱۹۲)
ان کے علاوہ بھی قرآن میں کچھ ناموں کا ذکر ہوا ہے۔
لیکن زیادہ تر اس کے دو نام لیے جاتے ہیں : القرآن اور الکتاب۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ دراز کہتے ہیں :
’’قرآن نام رکھنے میں زبانوں سے اس کی تلاوت کیے جانے کا لحاظ رکھا گیا ہے اور جب کہ کتاب نام رکھے جانے کی وجہ اس کا قلموں سے لکھا جانا ہے۔ چناں چہ ان دونوں ناموں میں حقیقی معنی کا خیال رکھا گیا ہے۔
قرآن کریم کے یہ دو نام رکھ کر اشارہ کیا گیا ہے کہ اسے دو جگہوں یعنی سینوں اور سطروں میں محفوظ کیا جائے، تاکہ اگر ایک جگہ غلطی ہو جائے تو دوسری جگہ سے اس کی درستگی ہو جائے۔ ہم کسی حافظ کے حافظے پر اس وقت تک اعتبار نہیں کرتے جب تک اس کا حفظ اہل علم سے منقول ان الفاظ سے متفق نہ ہو جو نسل در نسل اسی حالت پر نقل ہوتا آرہا ہے جس حالت پر پہلی مرتبہ لکھا گیا تھا۔ اسی طرح ہم کسی کاتب کی کتابت پر اس وقت تک اعتبار نہیں کرتے جب تک اس کی کتابت حفاظِ کرام کے اس حفظ کے مطابق نہ ہو جو صحیح سند سے تواتر کے ساتھ منقول ہو۔ اس خاص اہتمام کو اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے دلوں میں ڈال دیا ، یہ اس معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں ، اسی لیے قرآن آج تک ایک مضبوط قلعے میں محفوظ ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ بھی پورا ہو جاتا ہے جس میں اس نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، فرمایا:
﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ.﴾ (الحجر: ۹)
’’بے شک ہم نے ہی اس نصیحت (والی کتاب) کو اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘