کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 387
ان آیات میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے منافقین کی دو مثالیں بیان کی ہیں ۔ ﴿مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا﴾ میں آگ (نار) کی مثال بیان کی اور نار (آگ) نور کے مادے سے ہے۔ ﴿اَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ﴾ میں پانی کی مثال بیان کی اور پانی میں زندگی کا مادہ پایا جاتا ہے، جب کہ وحی آسمان سے نازل ہوئی جس میں دلوں کو روشن اور زندہ کرنے کا سامان ہے اور ان دونوں حالتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے منافقوں کا قصہ بیان کیا۔ یعنی منافقین اس شخص کی طرح ہیں جو روشنی اور نفع کے لیے آگ جلاتا ہے۔ چناں چہ منافقوں نے اسلام میں داخل ہو کر مادی نفع تو لے لیا لیکن ان کے دل اس نور سے روشن نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کی روشنی کو ختم کردیا۔ ﴿ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوْرَہِمْ﴾ اور جلانے کی قوت باقی رہ گئی۔ پھر پانی کی مثال بیان کی تو انہیں ایسے آدمی سے تشبیہ دی جسے ایسی بارش کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں اندھیرا اور بجلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے ہوش وحواس جواب دے جائیں اور گرج اور کڑک کے خوف سے اپنی انگلیاں کانوں میں دے کر آنکھیں بند کرلے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اپنے اوامرونواہی اور اپنے خطاب کے ساتھ ان پر بجلی کی طرح نازل ہوا ہے۔ ب۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرعد میں حق اور باطل کے لیے پانی اور آگ کی مثال بیان کی، فرمایا: ﴿اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَسَالَتْ اَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَآئَ حِلْیَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآئً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ. (الرعد: ۱۷) یہاں آسمان سے نازل ہونے والی وحی کو دلوں کی زندگی کے لیے اس پانی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو زمین اور اس کی نباتات کے لیے زندگی کا باعث ہوتا ہے۔ جب کہ دلوں کو ندیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ چناں چہ سیلاب جب ندیوں میں چلتا ہے تو جھاگ اور کوڑا کرکٹ وغیرہ ابھر آتا ہے، علم و ہدایت بھی اسی طرح ہیں جب یہ دلوں میں سرایت کرتے تو خواہشات ابھر آتی ہیں تاکہ ان کا