کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 385
شرط نہیں ہے۔ جب ہم قرآن کی ان امثال کو دیکھتے ہیں جو مولفین نے ذکر کی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس مقصد کے لیے وہ ایسی آیات پیش کرتے ہیں جن میں ایک معاملے کی حالت کو دوسرے معاملے کی حالت کے ہم مثل قرار دیا گیا ہو۔ اس قسم کی تمثیل کو استعارہ یا تشبیہ صریح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یا علماء ایسی آیات کو پیش کرتے ہیں جن میں ایجاز کے لیے دلفریب معنی کی دلالت ہوتی ہے یا ان کا استعمال تشبیہ کے لیے درست ہوتا ہے۔ ان تشبیہات کی ابتداء اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود کی ہے اور پہلے سے ان کی کوئی حیثیت موجود نہیں ہے۔ امثال القرآن کو اس کے اصل لغوی معنی تشبیہ یا نظیر پر محمول کرنا درست نہیں اور نہ ہی امثال پر تالیف کی گئی لغوی کتابوں پر انہیں محمول کرنا درست ہے کیوں کہ امثال القرآن ایسے اقوال نہیں ہیں جن میں وقتی حالت کو حقیقت پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح امثال القرآن کو علماءِ بیان کے ذکر کردہ مفہوم میں لیا جا سکتا ہے کیوں کہ قرآن کریم میں ایسی امثال بھی موجود ہیں جو استعارہ نہیں ہیں اور ان کا استعمال بھی عام نہیں ہے۔ لہٰذا آخری ضابطہ کہ ’’کسی معنوی مفہوم کو بہت ہی عمدہ انداز میں نہایت اختصار کے ساتھ اس طرح پیش کرنا جس سے دل متاثر ہو وہ تشبیہ کی صورت میں ہو یا عمومی بات پر۔‘‘ امثال القرآن کی تعریف کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ امثال القرآن کے بارے فرماتے ہیں : حکم کے لحاظ سے ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دینا، عقل میں آنے والی چیز کو حسی چیز کے قریب کرنا یا دو حسی چیزوں میں سے ایک کو دوسری کے قریب کرنا اور ایک کے ساتھ دوسری کا اعتبار کرنا ’’مثل‘‘ کہلاتا ہے۔ امام ابن القیم نے اس پر جو مثالیں بیان کی ہیں ان میں اکثر تشبیہ صریح کے طریق پر ہیں جیسے: ﴿اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ﴾ (یونس: ۲۴) بعض مثالیں ایسی ہیں جن میں تشبیہ واضح نہیں بلکہ ضمنی ہے۔ جیسے ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنْ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ﴾ (الحجرات: ۱۲)