کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 384
ضروری ہے جس کے ساتھ وقتی حالت کو تشبیہ دی جا سکے۔ لفظ مثال کا اطلاق کسی چیز کی حالت یا عجیب وغریب قصے پر ہوتا ہے۔ قرآن میں اس معنی کے لحاظ سے لفظ مثل بہت سی آیات میں آیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْہَا اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍ﴾ (محمد: ۱۵) یعنی جنت کا قصہ اور اس کی تعجب خیز حالت یا صفت۔ امام زمخشری نے اپنی تفسیر ’’الکشاف‘‘ میں مثل کے درج ذیل تین معانی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ۱۔ اصل کلام میں مَثل کا لفظ مِثل اور نظیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ۲۔ ایسا قول جس میں وقتی حالت کو ایک حقیقت سے تشبیہ دی جائے۔ ایسی بات کو صرف بطور مثال ہی لیا جاتا ہے ورنہ اسے رواج دینے یا قبول عام کے اہل نہیں سمجھا جاتا، کیوں کہ اس میں بعض وجوہ سے غرابت پائی جاتی ہے۔ ۳۔ جب کسی قصہ یا صفت میں کوئی انوکھا پن یا شان پائی جاتی تو اس کے لیے لفظ مثل کو استعارہ بطورِ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثل کا ایک چوتھا معنی بھی ہے جسے علماء بیان (بلاغہ) نے اختیار کیا ہے، ان کے نزدیک مثل کی تعریف یہ ہے۔ وہ مجاز مرکب جو کثرتِ استعمال کی وجہ سے مشابہت سے تعلق قائم کر لے۔ اصل میں اسے استعارہ تمثیلیہ کہا جاتا ہے۔ جیسے کسی کام سے کرنے یا نہ کرنے میں متردد شخص کو آپ کہتے ہیں : ((مَالِی اَرَاکَ تُقَدِّم رِجْلاً وَتُؤَخِّر اُخْریٰ)) کیا وجہ ہے کہ آپ ایک قدم آگے بڑھاتے اور دوسرا پیچھے کر کے کھینچ لیتے ہیں ۔ مثل کے ضابطے کے بارے اس طرح کہا جاتا ہے: کسی معنی کو حسی انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ اس میں خوبصورتی و خوشنمائی پیدا ہو جائے۔ مثل کے اس معنی میں اس کی حقیقت کا ہونا شرط نہیں ۔ اسی طرح اس کا مجاز مرکب ہونا بھی