کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 383
یَتَذَکَّرُوْنَ.﴾ (الزمر: ۲۷) نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہ اَنْزَلَ القُرآنَ اٰمِرًا وَزَاجِرًا وسنۃً خَالِیاً وَمَثَلاً مَضْرُوْبًا۔)) (رواہ الترمذی) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا جس میں اوامرونواہی، سابقہ امتوں کے طریقے اور اسی طرح اس میں مثالیں بھی بیان کی گئی ہیں ۔‘‘ علماء نے جس طرح قرآن کی امثال پر توجہ دی ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کی گئی مثالوں پر بھی توجہ دی ہے۔ چناں چہ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں اس پر باب قائم کر کے اس کے تحت چالیس احادیث بیان کی ہیں ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں : امام ترمذی کے علاوہ میں نے کوئی محدث نہیں دیکھا جس نے کتاب تصنیف کی ہو اور امثال پر الگ سے عنوان قائم کیا ہو۔ انہیں یہ اعزاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا، انہوں نے یہ دروازہ کھولا اور محل بنایا لیکن انہوں نے بہت تھوڑا لکھا، چناں چہ ہم اسی پر قناعت کرتے ہیں اور ایسا کرنے پر ان کے شکرگزار ہیں ۔ مثل کی تعریف: اَمْثَالٌ: مَثَلٌ کی جمع ہے مَثل، مِثل اور مثیل لفظی اور معنوی لحاظ سے شَبہ، شِبہ اور شبیہ کی طرح ہی ہے۔ ادب میں مثل سے مراد: ادب میں مثل سے مراد وہ بات ہے جس کے بیان کرنے کا مقصد بیان کی جانے والی چیز کے حال کو اس چیز کے حال سے تشبیہ دینا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بات کہی گئی ہو۔ جیسے ((رُبَّ رَمِیَۃٍ مِنْ غَیْرِ رَامٍ)) یعنی کچھ درست کام ایسے ہوتے ہیں جو ایسے انسان کی طرف سے صادر ہوتے جاتے ہیں جو عموماً غلطی کرتا ہے۔ یہ بات سب سے پہلے حکم بن یغوث النقری نے کہی تھی، اس میں اس نے ایسے خطاکار شخص کی مثال بیان کی ہے جو کبھی کبھی درست کام بھی کر لیتا ہے، لہٰذا مثال کے لیے ایک حقیقت کا ہونا