کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 38
کر دی تو دوسری ہر قسم کی کلام وہ انسانوں اور جنات کی ہو یا فرشتوں کی، اس سے خارج ہوگئی اور ’’المنزل‘‘ کہہ کر اسے اس کلام سے خارج کر دیا گیا جو اس کے پاس محفوظ ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا.﴾ (الکہف: ۱۰۹)
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ کہہ دیجیے اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لیے روشنائی بن جائیں تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائیں گے، خواہ ہم اس کے برابر مزید روشنائی لے آئیں ۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ﴾ (لقمان: ۲۷)
’’اگر روئے زمین کے درخت قلم اور سمندر روشنائی بن جائیں ، ان کے بعد سات سمندر اور آجائیں تو بھی اللہ تعالیٰ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔‘‘
منزل کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کر کے اسے سابقہ انبیاء پر نازل ہونے والی کتب مثلاً: تورات وانجیل وغیرہ سے خارج کر دیا گیا۔ نیز المتعبد بتلاوتہ یعنی اس کی تلاوت عبادت ہے ، کہہ کر اخبارِ احاد اور احادیث قدسیہ کی قراء ت کو اس سے خارج کر دیا، گوکہ احادیث قدسیہ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں ، لیکن انہیں قرآن کریم جیسا درجہ حاصل نہیں ہے، کیوں کہ ’’اس (قرآن)کی تلاوت عبادت ہے۔‘‘ اس جملے کا مطلب ہے کہ نماز وغیرہ میں عبادت کی غرض سے اس کی قراء ت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن کریم کے اسماء اور اوصاف:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بہت سے نام دیے ہیں ، مثلاً:
القرآن: ﴿اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ﴾ (الاسراء: ۹)
الکتاب: ﴿لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ﴾ (الانبیاء: ۱۰)