کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 379
اور فرمایا:
﴿وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: ۱۹)
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ﴾ (النساء: ۳۴)
خاندانی نظام کے بعد حکومتی نظام آتا ہے جو مسلم معاشرے کی قیادت کرتا ہے، قرآن کریم نے اسلامی حکومت کے قواعد وضوابط کو بہترین اسلوب میں مقرر فرمایا ہے۔
اسلام کے مطابق اسلامی حکومت درجِ ذیل خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔
حکومت باہمی مشاورت اور مساوات پر قائم ہو نہ کہ انفرادی غلبہ (آمریت) پر، اللہ رب العزت فرماتے ہیں :
٭ ﴿وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ (آل عمران: ۱۵۹)
٭ ﴿وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾ (الشوریٰ: ۳۸)
٭ ﴿اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ﴾ (الحجرات: ۱۰)
٭ ﴿قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَ لَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ (آل عمران: ۶۴)
اسلامی حکومت ایک ایسے عدل پر قائم ہوتی ہے جس پر ذاتی محبت، قرابت داری کے جذبات یا مال داری اور فقیری جیسے معاشرتی عوامل اثر انداز نہیں ہوتے۔
٭ ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.﴾ (النساء: ۱۳۵)
اسی طرح یہ وہ انصاف ہے جس میں دشمنوں سے بدلہ لینے کی آگ بھی اثر انداز نہیں