کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 377
﴿لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ (الانبیاء: ۲۲) ﴿قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا.﴾ (الاسراء: ۴۲) جب کسی مسلمان کا عقیدہ درست ہو جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرائض وعبادت میں قرآن کے قانون پر عمل کرے، ہر وہ عبادت جس سے ایک فرد کی اصلاح ہو سکتی تھی اسے فرض کر دیا گیا لیکن اس کے ساتھ اس کا معاشرتی اصلاح سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ چناں چہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے جب کہ راجح رائے کے مطابق شرعی عذر کے علاوہ باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے۔ اسی طرح جمعہ اور عیدین کے لیے بھی جماعت شرط ہے۔ چناں چہ جو شخص اکیلا نماز پڑھتا ہے تو وہ بھی شعوری طور پر روئے زمین پر پھیلے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئی امت اسلامیہ کے لوگوں کو نہیں بھولتا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس وقت روئے زمین پر موجود ہر مسلمان کے ساتھ ایک ہی طرف رخ کر کے ایک ہی قبلہ کی طرف نماز کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ ان کے دمیان بہت لمبے فاصلے ہیں لیکن سب ایک ہی دعا کر رہے ہیں : ﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.﴾ (الفاتحہ: ۵) ایک مسلمان کی تربیت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایک دن میں پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے کہ اس کی زندگی پر شریعتِ الٰہی کا رنگ آجائے اور ایک نماز سے دوسری نماز تک ایک بلندوبرتر ذات کا تصور اس کے ذہن میں رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ.﴾ (العنکبوت: ۴۵) زکوٰۃ نفس انسانی سے بخل کی جڑوں ، مال کی پوجا اور دنیاوی لالچ جیسی بیماریوں کو اکھاڑ پھینکتی ہے۔ اس میں معاشرتی مصلحت ہے، یہ مال داروں اور محروم لوگوں کے درمیان تعاون کی بنیادیں قائم کرتی ہے اور انسانی کو جماعتی ذمہ داریوں سے ایسا شعور حاصل ہوتا ہے جس کی بدولت وہ تنہائی یا برتری کی تکلیف سے نجات پا جاتا ہے۔