کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 374
قرآن کریم کے عمومی اشارات کو سائنس کے تبدیل شدہ جدید نظریات سے جوڑنے کی ہر کوشش میں بنیادی طور پرمنہجی غلطی پائی جاتی ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں اور تینوں وجوہات قرآن کریم کی عظمت و عزت کے لائق نہیں ہیں ۔ پہلی وجہ: یہ ایک اندرونی شکست ہے جس میں بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ سائنس اصل علم ہے اور قرآن اس کے تابع ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ قرآن کریم کو سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا قرآن کے لیے سائنس سے استدلال کرتے ہیں جب کہ قرآن اپنے موضوع کے لحاظ سے کامل اور حقائق کے اعتبار سے حتمی کتاب ہے، اور سائنس ایسی چیز ہے جو آج کی ثابت کی ہوئی چیز کو کل توڑ دیتی ہے اور اس سے متعلقہ چیزیں مطلق ہوتی ہیں نہ حتمی کیوں کہ یہ علم انسان کی عقل اور اس کے بنائے ہوئے آلات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اوریہ تمام چیزیں اپنی طبیعت کے لحاظ سے ایک حتمی حقیقت پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ دوسری وجہ: قرآن کے مزاج کو اچھی طرح سمجھا نہیں گیا۔ قرآن ایک حتمی حقیقت کا نام ہے اور یہ انسان کی تعمیر کا علاج اسی قدر کرتا ہے، جس قدر انسان کی طبیعت راغب ہوتی ہے اور ناموس الٰہی کی طرف اس کا جھکاؤ ہوتا ہے تاکہ انسان اس کائنات سے نہ ٹکرائے بلکہ وہ اردگرد کے ماحول سے واقفیت حاصل کرے، اس کے اسرار جانے اور اپنی خلافت کے ان ناموسوں سے تعاون لے جو غوروفکر اور تحقیق وتجربات سے منکشف ہوتے ہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کی بدولت ہوتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے انسان خود محنت کرے اور تیار شدہ معلومات کو تسلیم نہ کرے۔ تیسری وجہ: ایسی سوچ ایک تاویلِ مسلسل ہے جس میں قرآن کریم کی نصوص کے لیے تکلف اور حیلہ سازی کے علاوہ کچھ نہیں ، اس کا مقصد ہمیں بھی ایسے فرضی نظریات کے پیچھے لگانا ہے جو کبھی برقرار نہیں رہتے اور ہر آنے والے دن میں ان میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں ۔ (اقبتس ھذا