کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 373
جوشیلے لوگ قرآن میں اس طرح کے علوم تلاش کرتے ہیں یا بعض عیب جُو ان علوم کی مخالفت تلاش کرتے ہیں ۔ یہ دونوں چیزیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ لوگوں نے اس کتاب کے مزاج، کردار اور اس کے عملی میدان کو سمجھا ہی نہیں ۔ اس کا موضوع تو انسان اور انسانی زندگی ہے، اور ان کا منشا یہ ہے کہ یہ کتاب ایک تصور پیش کرے، جس سے کائنات کو اپنا خالق معلوم ہو سکے اور پتا چل سکے کہ انسان کی حقیقت کیا ہے اور ا س کا اپنے رب کے ساتھ کیا تعلق ہے، تاکہ اسی تصور کی بنیاد پر زندگی کا ایک ایسا نظام قائم ہو جائے جو انسان کو اس کی تمام تر عقلی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع فراہم کرے جن کے استعمال سے اس کی زندگی درست سمت میں چلتی رہے اور اسے آزادی کے ساتھ حدود میں رہتے ہوئے اپنے تجربات و تطبیقات کی بنیاد پر نتائج کے حصول کا موقع مل سکے۔ لیکن یہ نتائج حالات کے مطابق آخری ہو سکتے ہیں نہ ہی مطلق طور پر۔ حقیقت یہی ہے۔ مجھے ان جوشیلے لوگوں کی سادگی پر بڑا تعجب ہوتا ہے جو قرآن کی طرف وہ چیزیں منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور بلا مقصد قرآن پر بوجھ ڈالتے اور اس سے طب، کیمیاء اور فلکیات کے علوم کی جزئیات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اس کی عظمت اور بڑائی بیان کر سکیں ۔ اس بات میں شک نہیں ہے کہ قرآنی حقائق قطعی، حتمی اور مطلق ہیں لیکن جن حقائق تک انسانی تحقیق کی رسائی ہوتی ہے اس کے لیے جس قدر بھی اسباب مہیاہو جائیں وہ حقائق قطعی اور حتمی نہیں ہوتے بلکہ وہ حقائق تجربات اور ان کے لیے میسر آنے والے اسباب کے دائرے میں ہی محدود ہوتے ہیں ۔ اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ ہم قرآن کے حتمی حقائق کو غیر حتمی حقائق کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، جب کہ انسانی علم وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ تو علمی حقائق کے معیار کی بات تھی جب کہ فرضی نظریات جنہیں سائنس کا نام دیا جاتا ہے اس بارے تو معاملہ واضح ہے کہ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تغیروتبدل اور کمی بیشی ہوتی رہتی ہے بلکہ جدید آلات میسر آنے پر اس کے حقائق بدل جاتے ہیں یا پھر پرانی تحقیقات کی جگہ نئی تحقیق آجاتی ہے۔