کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 372
لَکُمْ وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا﴾ (الحج: ۵)
’’اے لوگو اگر تم دوبارہ اٹھائے جانے میں شک کرتے ہو (تو سنو) بلاشبہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو واضح شکل والا بھی ہوتا ہے اور غیر واضح (ادھوری) شکل والا بھی، تاکہ ہم تمہارے لیے (اپنی قدرت وحکمت) واضح کریں اور ہم رحم (مادر) میں جو چاہتے ہیں ایک وقت مقررہ تک برقرار رکھتے ہیں ، پھر ہم بچہ پیدا کرتے ہیں ۔‘‘
کائنات کی اکائی اور ہر زندہ چیز کے لیے پانی کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ.﴾ (الانبیاء: ۳۰)
’’کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ بے شک آسمان وزمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان دونوں کو الگ الگ کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے بنائی، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے؟‘‘
یہ اور ان جیسے دیگر سائنسی اشارات ہدایتِ الٰہی کا مظہر ہیں ، اب عقلِ انسانی کو چاہیے کہ ان میں غوروفکر اور تدبر کرے۔
استاد سید قطب آیت:
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ﴾ (البقرہ: ۱۸۹)
کی تفسیر میں کہتے ہیں : اس جواب کا تعلق صرف ان کے نظری علم سے ہی نہیں بلکہ ان کی عملی زندگی کے مطابق ہے کیوں کہ یہاں انہیں یہ بتایا گیا کہ چاند کس طرح اپنے مدار میں گھومتا ہے اور کس طرح پورا ہوتا ہے۔ اور یہ بات سوال کے مدلول میں شامل ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ قرآن اس کی قسم کی جزئی معلومات سے بڑے مقصد کے لیے آیا ہے، اس کے آنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ علمِ فلکیات، کیمیاء یا طب کی کتاب بن جائے جیسا کہ بعض