کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 371
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)
’’اللہ تعالیٰ جس شخص کو دینے کا ارادہ کرتے ہیں اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں ، اور جسے وہ گمراہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ، اس کا سینہ تنگ کر دیتے ہیں ، گویا وہ آسمان میں چڑھ رہا ہو۔‘‘
لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ ایٹم (ذرہ) وہ چیز ہے جسے مزید حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا جب کہ قرآن کہتا ہے:
﴿وَ مَا یَغْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَآ اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ.﴾ (یونس: ۶۱)
’’اور آپ کے رب سے زمین اور آسمان میں ایک ذرے کے برابر یا اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز دور نہیں ہے، ہر چیز کتابِ مبین میں ہے۔‘‘
اور یہ بات تو واضح ہے کہ ذرے کو توڑے بغیر اسے چھوٹا نہیں کیا جا سکتا۔
علمِ جنین کے بارے فرمایا:
﴿فَلْیَنظُرْ الْاِِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ. خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ. یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ.﴾ (الطارق: ۵۔۷)
’’چناں چہ انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا، وہ اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ.﴾ (العلق: ۲)
’’اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ