کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 370
یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا.﴾ (فاطر: ۲۷،۲۸) ’’کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ساتھ مختلف قسم کے پھل پیدا کیے اور پہاڑوں میں سے کچھ بہت سفید ہیں اور کچھ سرخ، مختلف رنگوں والے اور (کچھ) بہت سیاہ ہیں اور اسی طرح جانور اور چوپائے پیدا کیے جن کے رنگ مختلف ہیں ۔ بے شک اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح قرآن کا علمی اعجاز یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو غوروفکر کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ ان کے لیے معرفت کے دروازے کھولتا او اس کی طرف بڑھنے اور اس تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے، نیز ہر نئے مضبوط علم کو قبول کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ ان باتوں کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں مناسب سائنسی اشارات بھی موجود ہیں جنہیں بطور رہنمائی بیان کیا گیا ہے۔ یہاں ہم چند ایک سائنسی اشارات بیان کرتے ہیں ۔ نباتات میں دو قسم کی بارآوری پائی جاتی ہے۔ ۱۔ ذاتی ۲۔ اختلاطی ذاتی بارآوری (تلقیح) وہ ہے جس میں پھولوں کی مناسبت سے نر اور مادہ کے عنصر پائے جاتے ہیں ۔ جب کہ اختلاطی بارآوری وہ ہے جس میں نر کا عنصر مادہ کے عنصر سے علیحدہ ہوتا ہے، جیسا کہ کھجور، پھر اس میں بارآوری کا عمل کیا جاتا ہے جسے پیوندکاری کہتے ہیں ۔ اس بارآوری میں ہوا کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ﴾ (الحجر: ۲۲) ’’اور ہم نے بارآور ہواؤں کو بھیجا۔‘‘ اسی طرح آکسیجن ہے جو کہ سانس کے لیے انتہائی ضروری ہے اور یہ فضا میں بلندی پر جا کر کم ہو جاتی ہے۔ چناں چہ جب انسان فضا میں بلند ہوتا ہے تو اسے اپنے سینے میں گھٹن اور سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ اس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے: