کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 37
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کتاب کو قرآن کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام کتب سماویہ کا نچوڑ ہے، بلکہ اس میں تمام علوم کا نچوڑ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں : ﴿وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ﴾ (النحل: ۸۹) ’’ہم نے آپ پر ہر چیز کی وضاحت کرنے والی کتاب نازل فرمائی۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ﴾ (الانعام: ۳۸) ’’ہم نے کتاب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘ بعض علماء کا مذہب ہے کہ لفظ قرآن ’’قرء‘‘ سے مشتق نہیں ، وہ کہتے ہیں : یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کا اصل نام قرآن ہے، یا یہ قرن (ملانے) سے ماخوذ ہے، یا یہ قرائن سے مشتق ہے، کیوں کہ اس کی آیات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور اس میں نون اصلی ہے لیکن یہ رائے درست نہیں ، پہلی بات ہی صحیح ہے۔ قرآن کریم کی کوئی ایسی منطقی تعریف کرنا بہت مشکل ہے جس میں اس کی اجناس وفصول اور اس کے خواص کا بیان ہو سکے اور وہ تعریف اس کی حقیقی تعریف بن جائے۔ اس کی حقیقی تعریف یہی ہے کہ اسے ذہن میں موجود سمجھا جائے اور حسی طور پر اس کا مشاہدہ کیا جائے۔ مطلب یہ کہ قرآن مصحف میں لکھا گیا ہو یا زبان سے پڑھا جا رہا ہو تو آپ کہیں : قرآن تو وہ ہے جو ان دوگتوں کے درمیان ہے۔ یا آپ یہ کہیں کہ قرآن بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے لے کر مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ تک ہے۔ علماء اس کے معنی کے قریب قریب ایک تعریف بھی ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ سے دوسری کتابوں سے اس کا امتیاز ہو جاتا ہے اور لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن ہے، وہ تعریف یہ ہے: ((کَلَامُ اللّٰہِ الْمَنَزَّلُ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلي اللّٰہ عليه وسلم اَلْمُتَعَبَّدُ بِتِلَاوَتِہٖ۔)) ’’اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا، جس کی تلاوت عبادت ہے۔‘‘ تعریف میں کلام جنس ہے جو ہر کلام کو شامل ہے، اور جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف