کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 366
اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ استمرارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ نظریات میں بھی تجدید ہوتی رہتی ہے کیوں کہ ان میں نقص ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ ایسے نظریات کو کبھی دقیق کلام تو کبھی ابہامات پناہ دیتے ہیں ، یہ سلسلہ اس طریق پر چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ درستگی کے قریب ہو جاتا ہے اور پھر یقین کے درجہ تک جا پہنچتا ہے۔ یاد رہے کوئی بھی نظریہ جو غیر یقینی صورت حال سے شروع ہوتا ہے اسے تجربات کی بھٹی سے ضرور گزرنا پڑتا ہے تاکہ اس پر یقین آجائے اور اس کے ابہامات اور کھوٹ واضح ہوجائے، اس لیے اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔
بہت سے علمی قواعدوضوابط ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے پہلے لوگوں کو یقین ہو چکا ہوتا ہے کہ ان کی حقیقت مسلمہ ہے لیکن بعد میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں تو محققین نئے سرے سے ان پر تجربات شروع کر دیتے ہیں ۔ قرآن کریم کی علمی مسائل کے مطابق تفسیر کرنے والوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر علمی مسئلہ کو اس انداز پر مستنبط کریں جو علمی افق پر نمایاں نظر آئے۔ جب کہ ان کا یہ انداز قرآن کے ساتھ غیر مناسب ہے گو وہ اسے ایک اچھا کام سمجھ رہے ہوتے ہیں کیوں کہ جب ان مسائل کا واسطہ ترقی سے پڑتا ہے تو یہ بدل جاتے ہیں بلکہ بسااوقات تو ان کی بنیاد ہی منہدم ہو جاتی ہے۔ چناں چہ جب ہم اس انداز سے قرآن کی تفسیر کریں گے تو جب بھی قواعدِ علمیہ تبدیل ہوں گے، ان میں نقص واقع ہو جائے گا یا جب جدید حقائق منکشف ہوں گے تو پہلی تفسیر ختم ہو جائے یا یوں کہیے کہ یقین اندازوں کو ختم کر دے گا۔
جب کہ قرآن کریم عقیدہ وہدایت کی کتاب ہے جو ضمیر کو مخاطب کر کے اس میں نشوونما اور ارتقاء کے عوامل پیدا کرتی اور اس کے خیروبھلائی کے اسباب کو ابھارتی ہے۔
قرآن کا علمی اعجاز ایسے علمی نظریات پر مشتمل نہیں جن میں وقت کے ساتھ جدت اور تبدیلی آتی رہے، نیز وہ انسانی سوچ اور کوشش کا نتیجہ ہوں بلکہ اس میں تو غوروفکر کرنے دعوت ہے اور یہ انسان کو کائنات اور اس کی تدبیر کے بارے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس غوروفکر میں انسانی عقل ناکام نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ انسانی عقل اور اس کے ممکنہ علمی اضافے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جب کہ سابقہ تمام ادیان میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو قرآن کریم کی طرح علمی اضافے کی ضمانت دے سکے۔ علمی مسائل میں کوئی بھی مسئلہ ہو یا علمی قواعد کا کوئی بھی قاعدہ ہو تو عقلِ سلیمہ،