کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 365
انسانی کلام تھوڑا سا لمبا ہو جائے تو اس میں اختلال واختلاف واضح ہو جاتا ہے، جب کہ قرآنی ترتیب ایک عجیب کمال ہے، اس کا ربط بے مثال ہے، اس میں مواعظ بھی ہیں اور قصائص بھی، احکام بھی ہیں اور احتجاج بھی، اسی طرح اعذار و ارتداد، اندار، وعدہ ووعید، تبشیر وتخویف، اخلاقِ حسنہ اور سیرت کے حسین واقعات پر مشتمل ہونے کے باوجود اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حالانکہ اس میں تصرف کی تمام اقسام پائی جاتی ہیں ، لیکن پھر بھی اس کا انداز ایک ہی ہے۔ جب کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکمل اور بلیغ کلام، انوکھے شاعر اور گرج دار آواز میں بولنے والے خطیب مختلف کلاموں میں مختلف انداز اپناتے ہیں ۔ کچھ شاعر ایسے ہوتے ہیں جو کسی کی تعریف ومدح تو اچھے طریقے سے کر لیتے ہیں لیکن ہجو کرنے پر انہیں دسترس نہیں ہوتی، کچھ ہجو بہت خوب کرتے ہیں جب کہ تعریف کرنے میں مہارت نہیں رکھتے۔ بعض کو کوتاہی بیان کرنے میں مہارت ہوتی ہے جب کہ بعض اونٹوں اور گھوڑوں کے اوصاف اچھی طرح بیان کر سکتے ہیں ۔
کچھ شاعر رات کے سفر، جنگ کی ہولناکی، باغات کے نظارے، شراب کی مستی یا غزل کی خوبیاں اور ایسے دیگر امور میں بڑی مہارت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سواری کے لیے امراء القیس، تربیت کے لیے نابغہ اور ترغیب کے لیے زہیر جیسے لوگوں کو بطور ضرب المثل بیان کیا جاتا ہے۔
خطبات، خطوط اور کلام کی دیگر اقسام میں اسی طرح کی مختلف خوبیاں پائی جاتی ہیں ، جب کہ قرآن کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو گزشتہ تمام خوبیاں حسنِ ترتیب کے ساتھ اپنی اپنی جگہ نظر آتی ہیں ۔ یہ کتاب اپنی خوبیوں اور حسنِ تالیف کی بناء پر ایک انوکھی کتاب ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی کسی جگہ یہ کلام رفعت سے پستی کی طرف گرا ہے اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس جیسا کلام بنانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔[1]
۲۔ علمی اعجاز :
کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ قرآن کریم میں ہر ایک علمی نظریہ موجود ہے اس لیے جب بھی دنیا میں کوئی نیا نظریہ منظرِ عام پر آتا ہے تو اس کے نظریہ کے حاملین اپنے نظریہ سے ملتی جلتی کوئی آیت اس کے لیے پیش کرتے ہیں ۔
[1] دیکھیے اعجاز القرآن للباقلانی۔