کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 364
بعد پیغام رسانی کے لیے رائج صحیح، مفید، اور عمدہ ترتیب والا کلام ہے جس کے وزن میں اعتدال نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس میں تصنع بھی پایا جاتا ہے۔ جب کہ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن کلام کی ان تمام اقسام سے خارج ہے۔ قرآن میں مسجع کلام ہے، نہ شعر اور نہ ہی ان چیزوں سے قرآن کا تعلق ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ قرآن اہلِ عرب کے کلام کی تمام اصناف اور اندازِ تخاطب سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ اس لحاظ سے قرآن معجز ہے اور قرآن کریم کی یہ جملہ خصوصیات پورے قرآن میں پائی جاتی ہیں ۔ جب کہ عربوں کے ہاں اس قسم کی فصاحت وبلاغت، بدیع تصرف، عمدہ معانی، کثیر فوائد، حکمت و دانائی اور طوالت ومشابہت کے باوجود بہترین اسلوب والا کلام نہیں پایا جاتا۔ علیٰ ھذا القیاس اہلِ عرب کی باتوں میں گنے چنے اور بہت تھوڑے کلمات ہیں اور ان کے شعراء کی طرف بھی چند ایک قصائد منسوب ہیں اور وہ بھی اختلال واختلاف اور تکلف وتعسف سے بھرپور ہیں ۔ جب کہ اس کے برعکس قرآن کریم طوالت اور کثرتِ الفاظ کے باوجود فصاحت وبلاغت میں متناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ.﴾ (الزمر: ۲۳) ’’اللہ تعالیٰ نے کتاب کی صورت میں بہترین حدیث نازل فرمائی، جس کے کلمات آپس میں مشابہت رکھتے ہیں ، وہ بار بار دہرائی جاتی ہیں (اور) جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس کتاب کی وجہ سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے دل ذکر الٰہی کے لیے نرم پر جاتے ہیں یہ کتاب ذریعہ ہدایت ہے اللہ اس کے ساتھ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا: ﴿وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾ (النساء: ۸۲)