کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 363
انسان کے دل کی آنکھ جب قرآن کو دیکھتی ہے تو اسے لغوی اعجاز کے بہت سے اسرار نظر آتے ہیں ۔ انسان جب اس کی حرکات وسکنات، غنہ ومدات، فاصلے اور مقطع سنتا ہے تو اسے اس کی انوکھی صوتی ترتیب میں حروف کی تنبیہ نظر آتی ہے، کانوں میں اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی بلکہ مزید سننے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔
اس عظیم کتاب کے تمام الفاظ اپنے ہر ہر معنی کا حق ادا کرتے ہیں ۔ اس کے کسی لفظ کو زائد نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی کسی محقق کو اس میں کوئی ایسی جگہ نظر آتی ہے جہاں کسی نقص کی وجہ سے لفظ کے اثبات کی ضرورت پیش آتی ہو۔
اس کتاب میں لوگوں کی عقل وفہم سے مطابقت رکھنے والی خطاب کی تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ عوام وخواص میں ہر انسان اپنی عقل کے معیار کے مطابق اس سے خوشہ چینی کرتا ہے، قرآن اس چیز کو ان الفاظ میں بیان کرتاہے:
﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ.﴾ (القمر: ۱۷)
اس میں عقل کی قناعت اور عقل وشعور کی رعنائی کا ہر وہ سامان موجود ہے جس کی بدولت انسان کی بشری سوچ و فکر اور جذباتی ضرورت انتہائی بہتر انداز میں پوری ہوتی ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ قوتِ فکر جذباتی قوت پر اور جذباتی قوت،فکری طاقت سے نہیں ٹکراتی۔
اسی طرح جدھر بھی نظر جائے قرآن چیلنج اور اعجاز کی حجت بنا نظر آتا ہے۔
قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قرآن کی بدیع ترتیب میں اعجاز کے جو اسلوب وامور بھی پائے جاتے ہیں ان میں کچھ کا تعلق جملے سے ہے کیوں کہ قرآن کی ترتیب اپنے اسباب کی تبدیلی اور انوکھے طرز کے باوجود اہلِ عرب کی تمام معروف تر ترتیب سے بالکل الگ تھا اور ان کے تخاطب کی رائج ترتیب سے بھی مختلف تھا۔
قرآن کریم کو اپنے اسی اسلوب کی بناء پر بہت سی خصوصیات حاصل ہیں ۔ وہ اپنے تصرفات میں عام کلام سے ممتاز ہے، اس کی وجہ یہ ہے منظوم بدیعی کلام کے بہت سے طرق ہیں ، عرض وشعر کے لحاظ سے اس کی مختلف اقسام ہیں ، اس کے بعد غیر مسجع ہم وزن کلام کی اقسام ہیں ، اس کے