کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 362
کے لیے قتل، قید، فقیری اور ذلت اس مشکل ترین رستے پر سوار ہونے سے آسان کام تھا۔ اگر یہ بے بسی (عجز) نہیں تو کسے عجز کہیں گے؟ قرآن کریم عرب کے طرز کلام سے باہر نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ دراصل بات یہ ہے کہ قرآن کے حروف کا باہمی ربط، عبارت کی خوشنمائی، اسلوب کی شیرینی، آیات کی تنبیہ، بیان کی رعایت، اسمیہ اور فعلیہ جملے، اثبات ونفی، ذکر وحذف، نکرہ ومعرفہ کا استعمال، تقدیم وتاخیر، حقیقت و مجاز، ایجاز واطناب، عام و خاص کی رعایت، مطلق ومقید، دلالۃ النص اور ان جیسے دیگر امور میں اس بلندی پر پہنچا ہوا ہے جس کے آگے تمام تر انسانی لغوی قوتیں بے بس نظر آتی ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا تو اس پر رقت طاری ہوگئی، ابو جہل کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ ولید کے پاس جا کر اس سے کہنے لگا: اے چچا! آپ کی قوم نے آپ کو دینے کے لیے مال جمع کرنے کا ارادہ کیا ہے، کیوں کہ آپ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس گئے تاکہ آپ اس کا مقابلہ کر سکیں ۔ ولید نے کہا: قریش کو اس بات کا علم ہے کہ میرے پاس ان سب سے زیادہ مال ہے، تو ابوجہل کہنے لگا: پھر آپ کوئی ایسی بات کہیں جس سے آپ کی قوم کو پتا چل جائے کہ آپ انہیں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ناپسند کرتے ہیں اور ان کا انکار کرتے ہیں ۔ ولید نے کہا: میں کیا کہوں ؟ اللہ کی قسم تم میں سے کوئی شخص اشعار، رجز، قصائد اور جنوں کے اشعار کو مجھ سے زیادہ نہیں جانتا، اللہ کی قسم! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کچھ کہتے ہیں وہ ان میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں ہے اور اللہ کی قسم! ان کی باتوں میں مٹھاس ہے، وہ کلام خوش نما ہے، ان کی کلام کا اوپر والا حصہ پھل آور ہے تو نچلے والا حصہ بارش دینے والا ہے، وہ بہت بلند وبالا کلام ہے، ان کی کلام سے نیچے جو بھی ہے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ابوجہل کہنے لگا: جب تک آپ ان کی کلام کے بارے کچھ کہیں گے نہیں ، آپ کی قوم آپ سے خوش نہیں ہوگی۔ تو ولید کہنے لگا: مجھے سوچنے دو پھرسوچنے کے بعد اس نے کہا: یہ ایک جادو ہے، جسے وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی سے نقل کرتے ہیں ۔ تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں : ﴿ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا.﴾ (المدثر: ۱۱) (اخرجہ الحاکم وصححۃ والبیہقی فی الدلائل)