کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 361
کی محفلوں میں اس زبان کی تہذیب اور اس کے کمال کے وافر عناصر موجود تھے لیکن پھر بھی قرآن نے اس زبان والوں کو چیلنج کیا۔ اور یہ چیلنج بھی مختلف صورتوں میں تھا؛ پہلے دس سورتوں کا چیلنج، پھر کمی کر کے ایک سورت کا کہا، پھر ایک بات کا چیلنج کیا لیکن کسی بھی فرد وبشر کو اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی حالانکہ ان لوگوں میں بڑے بڑے خود دار، مغرور اور متکبر لوگ بھی موجود تھے۔ اگر ان لوگوں میں قرآن کا مقابلہ کرنے کی سکت ہوتی یا انہیں قرآن میں کوئی کمی نظر آتی تو زبانیں گنگ ہو جانے اور قلمیں ٹوٹ جانے کے بعد وہ اس چیلنج کے سامنے تلواریں لہرانے والے مشکل ترین رستے کو نہ اپناتے۔ (بلکہ اس کا مقابلہ کرتے)۔ اہلِ عرب پر صدیاں بیت جانے کے بعد قرآن کریم کا لغوی اعجاز ایک سربلند پہاڑ کی طرح قائم ہے۔ جس کے آگے ان کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں اور اس کے قریب آنے کی کبھی سوچ بھی نہیں آئی چہ جائیکہ اس کامقابلہ کریں کیوں کہ اس مشکل ترین کام میں عجز بہت زیادہ جب کہ طمع بہت کم ہے اور قیامت تک یہ معاملہ ایسے ہی رہے گا۔ قرآن کریم کا مقابلہ اگر ممکن ہوتا تو کوئی نہ کوئی اس کا دعویٰ ضرور کرتا۔ جب کہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے آپ کی قوم کے پاس قرآن کامقابلہ کرنے کے لیے اسباب موجود تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی رسالت کا انکار کیا تو قرآن نے ان کی حمیت کو ابھارا اور انہیں واضح طور پر چیلنج دیا، جس کی وجہ سے بزدل لوگ غضب ناک ہوگئے اور کانپنے لگے حالانکہ ان میں خودداری اور عزت نفس پائی جاتی تھی۔ چناں چہ ان لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت سے حربے استعمال کیے، آپ کو دعوتِ دین سے روکنے کے لیے مال اور بادشاہت کی پیش کی، آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مارنے کے لیے قطع تعلقی کر کے بھوکا رکھا، آپ کو جادوگر اور مجنون کہا، آپ کو قید کرنے، قتل کرنے یا مکہ سے نکال دینے کے مشورے بھی کیے لیکن آپ نے ان کو خاموش کرنے کے لیے ایک ہی راستہ اپنایا، وہ یہ تھا کہ تم بھی اس جیسا کلام لے آؤ۔ اگر یہ ان کے بس کی بات ہوتی تو یہ کام ان کے لیے سب سے آسان نہیں تھا؟ لیکن انہوں نے اس کام کے علاوہ ہر ایک حربہ اپنایا۔ یعنی ان