کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 360
رعنائیوں کے ساتھ عروج تک پہنچی اور اہلِ زبان نے اس زبان کے اشعار اور نثر کو ازبر کر لیا اسی طرح اس کی حکم وامثال کو ذہن نشین کر لیا۔ پھر علم بیان کے تمام مسحور کن اسلوب، ان کا تعلق حقیقت سے ہو یا مجاز سے، مختصر ہوں یا طویل، حدیث ہو یا مقال ان کے مطیع بن گئے۔
جب عربی زبان نے بلندی وعروج حاصل کر لیا تو لغتِ قرآن کے اعجاز کے سامنے رک گئی اور قرآن کی عظمت اور خوف کے سامنے جھک گئی۔ عربی زبان کی تاریخ نے اپنے سنہری اوراق پر یہ بھی رقم کیا کہ لغت عرب کے بامِ عروج پر پہنچنے کے باوجود اس زبان کے سرخیل اور مہارتِ تامہ رکھنے والے اساتذہ قرآنی بیان کی رفعت اور اس کے اسرار کا ادراک کرتے ہوئے جھک جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں اس کا یہی طریقہ جاری رہا ہے۔ آپ جس قدر اس کے بارے آگاہی حاصل کرتے جائیں گے اور اس کے رازوں سے واقفیت حاصل کرتے جائیں ، آپ اس کی عظمت کا اعتراف کرتے جائیں گے اور آپ کو اس سے عاجز آنے کا یقین کا پختہ ہوتا جائے گا جب کہ مخلوق کی بنائی ہوئی چیزوں میں یہ خوبی نہیں ہو سکتی۔ آیات اللہ کے علم کی فضلیت یہ ہے کہ جس قدر حاصل کرتے جائیں گے قوت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور معرفت کے رستے کھلتے چلے جائیں گے، اور یہی وجہ تھی کہ فرعون کے تمام جادوگر موسیٰ وہارون علیہم السلام کے رب پر ایمان لے آئے تھے۔[1]
جو لوگ خود پسندی اور غرور جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوں وہ قرآن کے اسلوب کے بارے بدزبانی کرتے ہیں اورایسی فضول باتیں کرتے ہیں جو نہایت کمزور، بے فائدہ اور بکواس کے مشابہ ہوتی ہیں ، یہ لوگ نبوت کے جھوٹے دعوے دار دجالوں کی طرح دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں ۔
تاریخ نے عربی زبان کے ان شہسواروں کو بھی دیکھا جنہوں نے اس زبان کے بڑے بڑے معرکوں کو سر کیا اور اس میدان میں ہمیشہ جیت دیکھی لیکن ان میں سے جب کسی کے دل میں اس قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنے کا خیال آیا تو سوائے ذلت ورسوائی کے کچھ ان کے ہاتھ نہ لگا، بلکہ تاریخ نے لغت کی اس عاجزی کو رقم کیا ہے۔
جب یہ قرآن نازل ہوا تو عربی زبان اپنی قوت حاصل کر چکی تھی، بازاروں اور ادب عربی
[1] النباالعظیم، ص: ۸۱۔